خدا کی پکڑ آگئی

0

شیخ ابراہیم الحازمی (کنگ سعود یونیورسٹی ریاض) لکھتے ہیں:
ایک آدمی سڑک پر جا رہا تھا، اس کی کمر پر ایک تھیلی بندھی ہوئی تھی، جس میں خاصی بھاری رقم موجود تھی۔ وہ گدھوں کے اصطبل میں داخل ہو کر وہاں بیٹھ گیا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ ایک آدمی اس کی تاک میں لگا ہوا ہے۔ اس نے تھیلی کھولی اور اس میں سے دینار نکالے۔ جو آدمی اس کی گھات لگائے بیٹھا تھا اس نے پر حملہ کر دیا۔ اسے باندھ دیا، منہ پر پٹی لگا دی اور دینار لے لیے، پھر اس آدمی کو کندھوں پر اٹھایا اور اسے ایک گڑھے میں زندہ ڈال دیا۔ پھر کچھ عرصہ بعد اس کی ہڈیاں نکالیں اور انہیں دریا میں ڈال دیا۔ اس نے سوچا کہ کام پورا ہو چکا ہے۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ قاتل تو مارا ہی جاتا ہے، چاہے اس میں کچھ عرصہ ہی کیوں نہ لگ جائے۔
ایک دن خلیفہ معتضد اپنے ایک زیر تعمیر گھر میں بیٹھے مزدوروں کا کام ملاحظہ فرما رہے تھے۔ انہوں نے ان کے درمیان ایک حبشی غلام کو دیکھا، جو کافی بدصورت ہونے کے ساتھ ساتھ مضحکہ خیز بھی معلوم ہو رہا تھا۔ وہ سیڑھیاں پھلانگتا ہوا چڑھ رہا تھا اور اوروں کے مقابلے میں دگنا بوجھ اٹھا رہا تھا۔ خلیفہ کو وہ کچھ مشکوک دکھائی دیا۔ انہوں نے اسے بلایا اور اس کی وجہ پوچھی، وہ ہکلانے لگا۔
خلیفہ نے ابن حمدون سے جو اس وقت وہاں موجود تھے کہا: ’’ تمہاری اس کے بارے میں کیا رائے ہے؟‘‘
انہوں نے کہا: ’’ آپ کیوں اپنے ذہن کو اس کے لیے الجھا رہے ہیں، شاید یہ کوئی بے اہل و عیال آدمی ہو، اس لیے بالکل بے فکر ہو کر دل جمعی کے ساتھ کام کر رہا ہے۔‘‘
خلیفہ نے کہا: ’’ تیرا ناس ہو، تم نے اس کے بارے میں جو اندازہ لگایا ہے، میں اسے لغو خیال کرتا ہوں، مگر میرے خیال میں یا تو اس کے پاس کچھ رقم ہے، جو اس نے یکبارگی ناجائز طریقے حاصل کی ہے یا پھر یہ کوئی چور ہے، جو یہ تعمیراتی کام کرکے خود کو چھپا رہا ہے۔‘‘
ابن حمدون نے بھی اسی نظر سے اسے دیکھا اور کہا: ’’ میں اس سیاہ فام کے متعلق معلوم کرکے ہی رہوں گا، اسے میرے سامنے حاضر کرو۔‘‘
چنانچہ اسے ابن حمدون کے سامنے حاضر کیا گیا تو انہوں نے اسے سو کوڑے لگوائے اور قسم کھائی کہ اگر تو نے سچ نہ بتایا تو تیری گردن اڑا دی جائے گی اور تلوار اور تختہ دار منگوا لیا، اس سیاہ فام نے کہا: ’’ میں امان چاہتا ہوں۔‘‘
خلیفہ نے فرمایا: ’’ اگر تجھ پر کوئی سزا نہیں بنتی تو تجھے امان ہے۔ جسے سیاہ فام سمجھ نہ سکا اور سمجھا کہ خلیفہ نے اسے امان دے دی ہے۔‘‘
کہنے لگا: ’’میں کافی عرصہ تک گدھوں پر بوجھ لاد کر مزدوری کرتا رہا۔ چند ماہ پہلے میں بیٹھا ہوا تھا کہ میرے پاس سے ایک آدمی گزرا، جس کی کمر پر تھیلی بندھی ہوئی تھی اور پورا قصہ سنا دیا۔‘‘
چنانچہ خلیفہ (معتضد) نے حکم دیا کہ اس کے گھر سے رقم لائی جائے تو وہی تھیلی لائی گئی، جس پر لکھا ہوا تھا کہ فلاں
بن فلاں۔ یعنی اسی مقتول کا نام۔ لہٰذا شہر میں مقتول کے نام سے اعلان کرایا گیا تو ایک عورت آئی اور کہنے لگی: ’’ یہ نام میرے شوہر کا ہے، وہ فلاں وقت کو گھر سے نکلا تھا اور اس کے پاس ایک تھیلی تھی جس میں ایک ہزار دینار تھے اور وہ اب تک لا پتہ ہے۔‘‘
خلیفہ نے رقم اس عورت کو دے دی اور اسے عدت گزارنے کا حکم دیا اور سیاہ فام کو قتل کروا دیا۔
(راحت پانے والے۔ مولف: ڈاکٹر ابراہیم الحازمی، استاذ کنگ سعود یونیورسٹی ریاض، سعودی عرب)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More