گزشتہ صدی کے اواخر میں سر ولیم میؤر ہندوستان کے صوبہ یو پی (اتر پردیش) کے گورنر تھے اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تعصب اور دشمنی کے لیے رسوائے زمانہ مستشرقین میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب ’’خلافت کا عروج و زوال‘‘ میں حضرت عمرؓ کی سیرت و کردار کا خلاصہ اس طرح رقم کیا ہے۔
’’ حضرت عمرؓ، پیغمبر اسلامؐ کے بعد مملکت اسلامیہ کی عظیم ترین شخصیت تھے۔ یہ انہی کی دانائی، صبر و تحمل اور زور و توانائی کا نتیجہ تھا کہ 10 سال کے اندر اندر شام، مصر وفارس مسلمانوں کے آگے سر نگوں ہو گئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے مرتد قبائل کو شکست دے کر پھر سے حلقۂ بگوش اسلام بنا لیا تھا، لیکن ان کی وفات کے وقت عساکر اسلامی نے ابھی شام کی سرحد ہی پار کی تھی۔ عنان خلافت سنبھالنے کے وقت حضرت عمرؓ صرف عرب کے حکمران تھے۔ لیکن جب ان کی عمر کا پیالہ لبریز ہوا تو وہ ایک وسیع سلطنت کے سربراہ تھے، جس میں بازنطینی سلطنت کے بہترین صوبے شامل تھے اور ایران بھی ان کے لشکر کے گھوڑوں کے پائوں تلے روندا جا چکا تھا۔ تاہم اس حیرت انگیز بختاوری کے باوجود انہوں نے کبھی دانش مندانہ اور اعتدال پسندانہ قوت فکر و فیصلہ کو نہیں چھوڑا اور نہ کبھی اپنے آپ کوایک عام کفایت شعار عرب سردار کی حیثیت سے بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ باہر سے آنے والے سفیر اور نمائندے مسجد نبویؐ میں چاروں طرف نظریں دوڑاتے تھے اور پوچھتے تھے کہ خلیفہ کہاں ہیں؟
جبکہ مملکت اسلامیہ کا حکمران وہیں ان کے سامنے معمولی لباس میں فرش مسجد پر بیٹھا ہوتا تھا۔
سادگی اور فرض شناسی حضرت عمرؓ کی زندگی کے رہنما اصول تھے اور غیر جانبداری، خلوص، تدین ان کے نظم و نسق کی نمایاں خصوصیات تھیں۔ انہیں اپنی ذمہ داری کا اس قدر شدید احساس تھا کہ سننے والوں نے انہیں یہ کہتے سنا ’’کاش! میری ماں نے مجھے نہ جنا ہوتا! کاش میں گھاس کا ایک تنکا ہوتا!‘‘
وہ بے حد انصاف پسند تھے۔ ولیم میؤر کے بقول: ’’سوائے حضرت خالدؓ بن ولید کے معاملے کے ظلم و ناانصافی کا کوئی واقعہ ان سے منسوب نہیں۔ حضرت خالدؓ کے معاملے میں بھی ان کی ناراضگی کا باعث حضرت خالدؓ کا وہ غیر محتاط سلوک تھا، جو ایک ہزیمت خوردہ دشمن سے کیا گیا۔‘‘
حضرت عمرؓ نے اپنے گورنروں اور امرائے لشکر کے انتخاب میں کبھی جانب داری سے کام نہیں لیا، سبھی انتخاب بہترین تھے۔ سلطنت کے مختلف قبائل اور گروہ جن کے مفادات بے حد متنوع اور باہم مختلف تھے، حضرت عمرؓ کی دیانت، صیانت اور بے لوثی پر مکمل اعتماد رکھتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے اپنی قوت بازو سے سلطنت میں قانون کی عملداری کا برقرار رکھا۔ بدوی قبائل اور قریش کے باہمی رشک و حسد اور رقابت کو دبائے رکھا۔ ان کی زندگی میں کسی کو اسلام (اور سلطنت اسلام) میں دخل انداز ہونے کی جرأت نہ ہو سکی۔ وہ درہ بدست مدینے کی گلیوں اور بازاروں میں تن تنہا پھرتے تھے تاکہ قانون شکنی کرنے والوں کو موقع پر ہی سزا دیں۔ اسی سے اس ضرب المثل نے جنم لیا کہ ’’عمرؓ کا درہ دوسروں کی تلوار سے زیادہ خوفناک ہے۔‘‘ اس کے باوجود وہ بہت نرم دل تھے۔ ان کے لطف و مہربانی کے بے شمار واقعات تاریخ کے صفحات میں موجود ہیں، مثلاً بیوائوں، یتیموں اور مظلوموں کی حاجت روائی۔‘‘ (ولیم میور)
Next Post