نماز جنازہ میں تمام دینی و سیاسی جماعتوں کی نمائندگی ہوگی

0

مرزا عبدالقدوس
سابق خاتون اول مرحومہ کلثوم نواز کی نماز جنازہ آج جمعرات کو سوا بارہ بجے ریجنٹ پارک مسجد لندن میں ادا کی جائے گی۔ جبکہ پاکستان میں ان کی نماز جنازہ جمعہ کے روز شام پانچ بجے لاہور میں ادا ہوگی۔ خیال کیا جارہا ہے کہ ان کا جنازہ لاہور کی تاریخ کا ایک بڑا اور تاریخی جنازہ ہوگا۔ ان کی تدفین شریف فیملی کے فارم ہاؤس رائے ونڈ میں میاں محمد شریف مرحوم کے پہلو میں ہوگی۔ شریف فیملی کے قریبی ذرائع کے مطابق ہیتھرو ایئر پورٹ سے جمعرات کی شام پی آئی اے کی پرواز نمبر پی کے 750 کے ذریعے بیگم کلثوم نواز کی میت پاکستان کے لئے روانہ ہوگی، جو جمعہ کی صبح چھ بجے پہنچے گی۔ ان ذرائع کے بقول ابتدا میں تجاویز دی گئی تھی کہ مرحومہ کلثوم نواز کی نماز جنازہ داتا دربار میں ادا کی جائے، کہ میاں نواز شریف کے والد میاں محمد شریف جن کا جدہ میں انتقال ہوا تھا، ان کی میت پاکستان لاکر نماز جنازہ داتا دربار میں ادا کی گئی تھی۔ پھر یہ علاقہ مرحومہ کلثوم نواز اور ان کے خاندان کا آبائی علاقہ ہے، جہاں اب بھی وہ بڑی تعداد میں رہائش پذیر ہیں۔ لیکن چونکہ کلثوم نواز کی نماز جنازہ میں بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت متوقع ہے، اس لئے داتا دربار کے بجائے شریف میڈیکل سٹی میں نماز جنازہ کا فیصلہ کیا گیا۔ تاہم سابق لیگی صوبائی حکومت کے ترجمان اور شریف خاندان کے قریبی ایم پی اے ملک احمد خان نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک طے نہیں ہوا کہ نماز جنازہ لاہور یا رائے ونڈ میں کس مقام پر ادا ہوگی۔ مناسب سیکورٹی اور لوگوں کی آمد اور واپسی کے تمام امور کو سامنے رکھ کر فیصلہ کیا جائے گا۔ ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ حمزہ شہباز، سلیمان شہباز ایک دن پہلے ہی لندن جا چکے ہیں۔ کل شہباز شریف بھی میت لینے چلے گئے۔ اب شہباز شریف اپنے بیٹوں سے ملاقات کے بعد رائے ونڈ فارم پر سب جیل میں موجود نواز شریف سے رابطہ کریں گے۔ لندن پہنچ کر ہی دیگر احباب سے بھی مشاورت کریں گے، جس کے بعد لاہور میں نماز جنازہ کی جگہ کا تعین کیا جائے گا۔ اور یہ کہ زیادہ امکان ہے کہ نماز جنازہ ممتاز دینی اسکالر ڈاکٹر محمد راغب حسین نعیمی یا پیر سید ریاض حسین شاہ میں سے کوئی ایک پڑھائے گا۔
ذرائع کے مطابق بیگم کلثوم نواز کی نماز جنازہ میں جماعت اسلامی، جے یو آئی، اے این پی کے اہم رہنما جن میں سینیٹر سراج الحق، لیاقت بلوچ، ڈاکٹر فرید پراچہ، مولانا فضل الرحمان، مولانا عبد الغفور حیدری، اکرم درانی، میاں افتخار حسین، حاجی غلام احمد بلور ممکنہ طور پر شریک ہوں گے۔ اسی طرح ذرائع کے بقول ایم کیو ایم کے اہم رہنما بھی نواز شریف کے دکھ میں شریک ہوں گے۔ جبکہ پی ٹی آئی کی موثر نمائندگی ہو گی۔ تحریک انصاف کے ذرائع کے مطابق بیگم کلثوم نواز کی نماز جنازہ میں ان کی جماعت کی اعلیٰ شخصیات پارٹی کی نمائندگی کریں گی۔ سیکورٹی کے پیش نظر وزیر اعظم عمران خان کا نماز جنازہ میں شرکت کا امکان نہیں ہے۔ البتہ اس سے اگلے ایک دو روز میں ان کے فاتحہ خوانی کے لئے جانے کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ پی پی ذرائع کے مطابق سیکورٹی کی وجہ سے آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کا نماز جنازہ میں شریک ہونے کا امکان کافی کم ہے۔ البتہ سید خورشید شاہ، قمر زمان کائرہ اور راجہ پرویز اشرف ذاتی حیثیت میں اور پارٹی نمائندگی کرتے ہوئے نماز جنازہ میں شریک ہوں گے۔ جس طرح کہ بے نظیر بھٹو کی تدفین کے اگلے دن نواز شریف نوڈیرو اظہار تعزیت اور فاتحہ خوانی کے لئے گئے تھے، اسی طرح تدفین کے اگلے دن یا رسم قل کے موقع پر پی پی کی اعلیٰ ترین قیادت کا فاتحہ خوانی کے لئے رائے ونڈ جانے کا امکان ہے۔ ذرائع کے مطابق گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور بھی نماز جنازہ میں شریک ہوں گے۔ سابق صدر ممنون حسین کے علاوہ اگر سابق صدر رفیق تارڑ کو صحت نے اجازت دی تو وہ بھی کلثوم نواز کی نماز جنازہ میں شرکت کریں گے۔ صوبہ خیبرپختون سے سابق گورنر اقبال ظفر جھگڑا، سردار مہتاب عباسی، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وزرائے اعلیٰ پیر صابر شاہ، اکرم درانی سمیت کئی سیاسی شخصیات اور ریٹائرڈ اعلیٰ فوجی افسران بھی شریک ہوں گے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی آرمی چیف کی جانب سے شریف خاندان کے ساتھ اظہار تعزیت کیا ہے۔ امکان ہے کہ کور کمانڈر لاہور یا فوج کی اعلیٰ سطح کی نمائندگی بھی نماز جنازہ ہوگی۔ اگر بلاول بھٹو زرداری نے نماز جنازہ میں شریک ہونے کا فیصلہ کیا تو وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ بھی اپنے پروٹوکول کے ساتھ ان کے ہمراہ ہوں گے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی بھی نماز جنازہ میں شرکت متوقع ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے تمام اراکین قومی و صوبائی اسمبلی، سابق وفاقی و صوبائی وزرا، ارکان سینیٹ، سابق امیدوار اسمبلی اور تمام عہدیداران اپنے ساتھیوں اور ووٹرز کے ہمراہ نماز جنازہ میں شریک ہوں گے۔
مرحومہ کلثوم نواز کی مشکل سیاسی حالات میں جدوجہد اور اقتدار کے دور میں گھریلو خاتون کے طور پر کردار ادا کرنے کو تمام جماعتوں کے سیاسی رہنما اور ہر شعبہ ہائے زندگی کے افراد کھلے دل کے ساتھ تعریف کر رہے ہیں۔ بیگم کلثوم نواز نے ایم اے اردو کیا تھا۔ اردو ادب پر ان کی دو کتب بھی ہیں۔ شعر و شاعری سے ان کو شغف تھا۔ فلسفہ میں پی ایچ ڈی تھیں۔ لیکن ساری زندگی کوئی ایسا کام نہیں کیا یا پرویز مشرف جیسے ڈکٹیٹر کے خلاف بھی ایسا بیان نہیں دیا جو کسی بھی اخلاقی پہلو سے کلثوم نواز کی عظمت کو کم کرے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More