سندھ حکومت کے پاس191لگژری گاڑیاں ہونے کا انکشاف

0

کراچی (رپورٹ: ارشاد کھوکھر) حکومت سندھ کے پاس کروڑوں روپے مالیت کی 176لگژری اور 15بلٹ پروف گاڑیاں ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ بیش قیمت گاڑیاں نیلام کرنے کے عدالتی فیصلے سے سندھ انتظامیہ اور حکومتی حلقوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے، مختلف محکموں کے اعلیٰ انتظامی افسران کیساتھ ضلعی انتظامیہ کے مختلف افسران بھی لگژری گاڑیوں کی سہولت کو مختلف حوالوں سے ضروری قرار دیتے رہے بلکہ ختم کرنے کے حق میں نہیں ہیں ۔ وزیراعلیٰ و گورنر ہاؤس سمیت پروٹوکول کیلئے لگژری گاڑیوں کو ضروری قرار دیا جارہا ہے، اس ضمن میں کل جمعے کو کابینہ کے اجلاس میں کھلی بحث کے بعد عدالتی فیصلے کی روشنی میں پالیسی تیار کرنے کاامکان ہے۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ صوبائی وزرا اور اعلیٰ انتظامی افسران 1300سے 1800سی سی تک کی سرکاری گاڑیاں استعمال کرنے کے مجاز ہیں لیکن سندھ میں مختلف محکموں کے انتظامی سربراہان کمشنرز و ڈپٹی کمشنرز کے پاس فارچونز و لینڈ کروزرز سمیت اس نوعیت کی 60 لاکھ مالیت کی لگژری گاڑیاں ہیں، جن کے دیگر گاڑیوں کے مقابلے میں تیل، اخراجات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں عدالت عظمیٰ نے واضح احکامات جاری کردئیے ہیں کہ افسران و حکومتی افراد سے لگژری گاڑیاں واپس لے کر ان میں جو گاڑیاں10سال پرانی نہیں انہیں نیلام کیاجائے اور باقی لگژری گاڑیوں کے بے جا استعمال ختم کرکے اس حوالے سے وفاق اور صوبائی حکومتیں موثر پالیسی تیارکرکے لگژری گاڑیوں کا کلچر ختم کریں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں حکومت سندھ نے تمام لگژری گاڑیوں کی رپورٹ تیارکرنے کے احکامات جاری کئے تھے۔ اس ضمن میں جواعدادوشمار تیار کئے گئے ہیں ان میں گورنرہاؤس اوراعلیٰ سرکاری افسران کے گاڑیوں کیساتھ مختلف صوبائی اوراداروں کے پاس تقریباً 176قیمتی مہنگی لگژری گاڑیوں کا انکشاف ہو ا ہے، جن میں فارچونر اور لینڈکروزر وغیرہ شامل ہیں۔ اسکے علاوہ سندھ حکومت کے پاس تقریباً 15بلٹ پروف گاڑیاں بھی ہیں، جن میں سے نئی گاڑیاں پولیس کے زیر استعمال ہیں، جن میں سے ایک بلٹ پروف گاڑی آئی جی، ایک ایڈیشنل آئی جی، سی ٹی ڈی اور ایک ایڈیشنل آئی جی کراچی پولیس کے زیر استعمال ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ کے پاس لگژری گاڑیاں پہلے بھی رہی ہیں لیکن گزشتہ 10سے 15برس کے دوران لگژری گاڑیاں خریدنے کے رحجان میں اضافہ ہوا ہے، جن میں سے کئی گاڑیاں مختلف بااثر اور اعلیٰ صوبائی حکام سے قریبی تعلقات رکھنے والے وزیروں و مشیروں کی فرمائش پر خرید کر انہیں الاٹ کی گئی تھی ۔ خصوصاً گزشتہ 10برس کے دوران لگژری گاڑیوں کے رحجان میں زیادہ اضافہ ہوا ہے لگژری گاڑیاں واپس کرنے اور نیلام کرنے کے عدالتی فیصلے سے سندھ انتظامیہ اور بعض حکومتی حکام میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ لگژری گاڑیاں جن حکومتی شخصیات اور افسران کے زیر استعمال ہیں وہ گاڑیاں واپس کرنے کے حق میں نہیں ہیں ۔ لگژری گاڑیاں رکھنے کیلئے متعلقہ افسران مختلف دلائل پیش کرتے ہیں، تاہم سپریم کورٹ کے فیصلے کے باعث کوئی افسریا وزرا اس حوالے سے تحریری کرنے سے قاصر ہیں۔ ذرائع کا کہناہے کہ یہ معاملہ 3ستمبر کو منعقدہ سندھ کابینہ کے اجلاس کے ایجنڈا میں شامل تھا، تاہم مختلف وجوہات کے بنا پر اس پر غور کابینہ کے آئندہ اجلاس تک موخر کیاگیا تھا ۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے اب کابینہ کا اجلاس کل طلب کیا ہے، جس میں رواں مالی سال کے آئندہ 9ماہ کے صوبائی بجٹ کی منظوری لے کر اس کا بجٹ سندھ اسمبلی کے ایوان میں منظوری کیلئے پیش کیا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ انتظامیہ نے لگژری گاڑیوں کے ایجنڈا بھی سندھ کابینہ کے کل ہونے والے اجلاس میں شامل کیا ہے ۔ ذر ائع کا کہناہے کہ سندھ انتظامیہ نے اس حوالے سے اپنی کوئی سفارشات تیار نہیں کی ہے تاہم سندھ انتظامیہ کی جانب سے اس حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے اور موجود لگژری گاڑیوں کے متعلق بریفنگ دی جئے گی، جس پر سندھ کابینہ خود بجث کرکے اس ضمن میں پالیسی تیار کرسکتی ہے کہ لگژری گاڑیوں کی نیلامی اور ان کے استعمال کیلئے کون سے پالیسی نافذ کی جائے ۔ ذرائع کا کہنا ہے مختلف حکام کا موقف ہے کہ صدر مملکت، وزیراعظم اور دیگر اعلیٰ حکومتی شخصیات و عالمی مالیاتی اداروں سمیت مختلف عالمی وفود کی آمد کے موقع پر لگژری گاڑیوں کی ضرورت پڑتی ہے، اس لئے وزیراعلیٰ و گورنر ہاؤس پروٹوکول کیلئے مختلف گاڑیوں کے پول میں لگژری گاڑیوں کی ضرورت ہے۔ ذرائع کا کہناہے کہ سندھ کابینہ کے اجلاس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اس معاملے پر غور کیاجائے گا ۔ آئندہ لگژری گاڑیوں کی خریداری پر پابندی عائد کرنے کیساتھ موجودہ لگژری گاڑیوں میں جو اچھی پوزیشن میں ہیں انہیں مختلف مواقع اور مخصوص صورتحال میں استعمال کیاجائے ۔ ذرائع کا کہناہے کہ اس ضمن میں سندھ کابینہ پالیسی تیار کرنے کیسا تھ جو بھی فیصلہ کرے گی، اس کے متعلق سپریم کورٹ میں بھی رپورٹ جمع کرائی جائے گی ۔ جس کا سپریم کورٹ جائزہ لے سکتی ہے کہ یہ صوبائی حکومت کے اقدامات حکومتی فیصلے کے مطابق ہیں یا نہیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More