قسط نمبر6
سید ارتضی علی کرمانی
آپ جب ابتدائی تعلیم سے فارغ ہو کر حضرت خواجہ شمس الدینؒ سیالوی سے مجاز ہوئے تو ایک مرتبہ عرس سیال شریف کے موقع پر مولانا سلطان محمودؒ نے آپ کو انگہ چلنے کی دعوت دی۔ عرس کے اختتام پر دونوں استاد و شاگرد گھوڑوں پر سوار انگہ روانہ ہوئے۔ راستہ میں ایک جگہ استاد صاحب نے اپنا گھوڑا روک لیا اور گھوڑے سے اتر کر پیدل حضرت صاحب کے گھوڑے کے آگے دوڑنے لگے۔
آپ نے پاس ادب کی وجہ سے اپنے گھوڑے سے اترنا چاہا تو استاد محترم نے کہا کہ اگر آپ نے میرے حکم کے خلاف کیا تو خلاف ادب تصور کروں گا اور حق شاگردی کے بھی خلاف تصور کروں گا۔ حضرت صاحبؒ فرماتے ہیں کہ اس دوران میں بڑی شرمندگی محسوس کرتا رہا۔ پھر ایک مقام پر استاد صاحب گھوڑے پر سوار ہوگئے اور فرمایا کہ ایک مرتبہ سفر کے دوران جب سیال شریف جا رہے تھے تو اسی مقام پر اتنی ہی مسافت آپ نے میرے گھوڑے کے آگے دوڑ کر طے کی تھی۔ اس بات کا میرے دل و دماغ پر بہت بوجھ تھا اور میں اسے بے ادبی تصور کرتا تھا۔ آج میں نے اس کی تلافی کر دی۔
کیا قدر و منزلت ہے کہ ایک استاد جو خود قابلیت کا اعلیٰ نمونہ ہے، اپنے ایک شاہکار شاگرد کی کس قدر عزت افزائی کر رہا ہے۔ استاتذہ اور ان کی اولاد کے احترام کے متعلق شیخ الجامعہ صاحب رقمطراز ہیں کہ’’ میں نے اکثر دیکھا کہ جہاں جہاں حضرتؒ نے تعلیم پائی، وہاں کے تمام باشندوں کا آپ بے حد احترام فرماتے تھے۔ استاد زادگان کے احترام کی تو حد ہی نہیں تھی۔ موضع بھوئی کے مولوی صاحبان کے ساتھ حضرت کا سلوک ضرب المثل تھا۔ انگہ کے استاد حافظ سلطان محمود صاحب کے صاحبزادے مولوی شمس الدین صاحب کو آپ خود بخاری شریف پڑھایا کرتے تھے اور جب ان کا انتقال ہوا تو ان کی تعزیت کے لیے انگہ تشریف لے جا کر وہاں اپنے خرچ سے وسیع پیمانے پر طعام بنوا کر تقسیم فرمایا۔ اس کے بعد مدت العمر تمام کنبے کی خبر گیری فرماتے ہے۔ انگہ کا کوئی آدمی ملنے آتا تو اس کا خاص خیال فرماتے۔ بلکہ وادی سون کا تمام علاقہ حافظ سلطان محمود صاحب کی وجہ سے حضرتؒ کے نزدیک قابل احترام ہوگیا تھا۔‘‘
حالانکہ آپ اس سے قبل پڑھ چکے ہیں کہ آپ کے استاد محترم آپ کی کس قدر قدر و منزلت کرتے تھے، مگر حضرت صاحب نے سنت نبویؐ کی پیروی کو اپنا شعار بنایا اور سرکار دو عالمؐ کے اسوہ حسنہ کے مطابق اپنے پیاروں سے محبت و یگانگت کا برتاؤ کیا۔ آنحضرتؐ کی حیات طیبہ اہل اسلام کے لیے روشن ذریعہ ہے اور ہمارے بزرگوں نے اپنی زندگانیوں کو انہی خطوط پر استوار فرمایا۔
آنحضرتؐ کی خدمت اقدس میں جب دائی حلیمہ کا کوئی رشتہ دار بھی حاضر ہوتا تو آپؐ اس کی بڑی عزت فرمایا کرتے تھے اور یہ طریقہ ہمیں تمام بزرگان دین میں نظر آتا ہے۔ کیونکہ حضرت صاحب ایک سچے عاشق رسول کریمؐ تھے۔ ان سے زیادہ کسے اسوہ حسنہ سے واقفیت ہوگی۔
انگہ میں اپنی طالب علمی کے زمانے کا ایک واقعہ حضرت صاحبؒ اپنی تصنیف ’’اعلا کلمۃ اللہ‘‘ میں نقل فرماتے ہیں کہ’’ جن دنوں میں بطور طالب علم انگہ میں مقیم تھا۔ ایک عمر رسیدہ اور مسافر بزرگ شکر کوٹ میں رہا کرتے تھے۔ ان کا نام بابا نور ماہی مشہور تھا۔ قادریہ سلسلہ میں حضرت شیخ محمودؒ چکی والے کے دست حق پرست پر ان کی بیعت تھی۔ ہر مہینہ کی گیارہویں کو ایک بکرا یا دنبہ خود پال کر جناب غوث الاعظمؒ کے ختم شریف کے لیے ذبح کیا کرتے تھے اور ساتھ ہی حلوہ اور روٹیاں پکا کر فقرا میں تقسیم کرتے۔
اس نیاز مند خادم الاولیاء کو خاص اصرار اور اہتمام کے ساتھ شریک دعوت فرماتے اور میرے حال پر حد درجہ مہربانی کی نظر رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ بغیر میری استدعا کے مجھے شغل پاس انفاس کی اجازت فرمائی۔ ایک روز میں شکر کوٹ سے انگہ جا رہا تھا کہ راستہ میں دور سے میں نے انہیں اس دنبے کو چراتے اور اس کے ساتھ کھیلتے دیکھا۔ جسے وہ گیارہویں شریف کے ختم کے لیے پال رہے تھے۔
باوجود سفید ریش بزرگ ہونے کے ازراہ محبت و فرط شوق کبھی اسے کندھے پر اٹھاتے اور کبھی زمین پر کھڑا کر دیتے۔ میں نے قریب جا کر سنا تو کہہ رہے تھے۔
’’ او میرے محبوب دیالیلیا‘‘
اس جملہ میں محبت و شوق کا ایسا طوفان تھا کہ دل بے حد متاثر ہوا اور خیال آیا کہ تحصیل علم سے فارغ ہو کر گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر کتابوں کے مطالعہ میں وقت بسر کروں گا اور تدریس وغیرہ نہ کروں گا۔
جب ذرا آگے ہو کر ان سے ملنے کے لیے بڑھا تو مجھے دیکھ کر فرمانے لگے ’’پیر صاحب جو شخص علم پڑھ کر تعلیم نہیں دیتا وہ ایسا ہے کہ جیسے درخت بے ثمر۔‘‘ یہ بات کہہ کر پھر اس دنبے کے ساتھ مشغول ہوگئے۔ ان کو غوث الاعظمؒ سے قوی رابطہ تھا۔‘‘(جاری ہے)
Prev Post
Next Post