ایک ہی استاد جب اپنے شاگردوں کو ٹریننگ دیتا ہے، ان کے اعمال ایک جیسے ہونے چاہئیں، صحابہ کرامؓ کے بھی ایک ہی استاد تھے، ان کے اعمال میں کیوں فرق ہے؟ حکمت اس میں یہ ہے کہ اعمال کے فرق کا رب تعالیٰ نے ہمیں فائدہ دیا ہے کہ ہم اپنی صورت حال کے مطابق ان میں سے کسی ایک کی پیروی کریں۔ مثال کے طور نبی کریمؐ نے خدا کے راستے پر خرچ کرنے کا حکم دیا۔ اب خدا کے راستے میں خرچ کرنے کی چار صورتیں ممکن ہیں۔ پہلی صورت یہ کہ آدمی عشق الٰہی میں اتنا مست ہو کہ جو کچھ ہو، سب کا سب خدا کے راستے میں خرچ کر دے، اگر یہ صورت ہے تو حضرت ابو بکر صدیقؓ کے نقش قدم پر ہے اور اگر کبھی یہ صورت حال ہوتی ہے کہ اس کی زندگی میں توازن ہے، یعنی دین و دنیا دونوں میں اس نے توازن رکھا ہوا ہے تو وہ آدھا مال خدا کی راہ میں خرچ کرے اور بقیہ آدھا اپنے اہل و عیال کی ضروریات کے لیے رکھے۔ ایسے شخص کے لیے حضرت عمر بن الخطابؓ کے راستے کے قدم موجود ہیں۔ تیسری صورت یہ کہ بعض اوقات انسان کو رب تعالیٰ اتنا غنی بنا دیتے ہیں کہ وہ جتنا بھی خرچ کرے، اس کے مال میں کچھ فرق نہیں پڑتا۔ حضرت عثمان غنیؓ کی زندگی میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں موجود ہیں۔ چوتھی صورت یہ کہ کبھی انسان پر فقر و فاقہ کا ایسا معاملہ ہوتا ہے کہ اس کے پاس دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوتا تو سیدنا علیؓ کی زندگی اس کے لیے مینارہ نور ہے، کیوں کہ ان پر پوری زندگی میں کبھی زکوٰۃ فرض ہی نہیں ہوئی، کبھی کچھ جمع ہی نہیں کیا، اب ان چاروں صورتوں میں سے انسان جس حال میں بھی ہوا، اس کے لیے صحابہ کرامؓ کی زندگیوں میں نمونے موجود ہیں۔ پس صحابہ کرامؓ کے حالات میں حق تعالیٰ نے امت کے لیے وسعت پیدا کر دی۔