سید ارتضی علی کرمانی
انگہ میں جن دنوں حضرت پیر سید مہر علی شاہ صاحبؒ تحصیل علم فرما رہے تھے، آپ کو تعلیم حاصل کرنے اور تعلیم دینے میں اس قدر انہماک تھا کہ اپنی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ہی ساتھ چھوٹے درجے کے طلباء کو تعلیم بھی دیا کرتے تھے۔ اس کی اجازت آپ کے استاد محترم نے ان کو مرحمت فرما دی تھی۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ موسم سرما کی طویل راتیں عشا کی نماز کے بعد مطالعہ میں ہی گزر جاتیں۔ یہاں تک کہ اسی حالت میں اذان فجر ہوجاتی۔
دھیرے دھیرے آپ کے پاس پڑھنے والے طلبا کی بہت زیادہ تعداد ہو گئی۔ اب آپ نے اپنا قیام انگہ سے ترک کرکے شکر کوٹ میں فرما لیا۔ یوں آپ دن میں تو انگہ میں تعلیم حاصل فرماتے اور شام کو جا کر شکر کوٹ میں طالبان حق کو درس سے سرفراز فرماتے۔ یعنی یہ اس زمانے کی بات ہے جب حضرت صاحب کی عمر 13, 14 برس سے زائد نہ تھی۔ اس کم عمری میں حضرت صاحب کی قوت حافظہ اور اندازبیاں اس قدر اثر انگیز تھا کہ آپ کے پاس لوگ حصول علم کے لیے بڑے بڑے نامی استاتذہ کو چھوڑ کر آتے تھے۔ یہ سب حق تعالیٰ کی طرف سے عنایت تھی۔
انگہ میں حضرت شاہ صاحبؒ کا قیام برائے حصول علم ڈھائی برس کم و بیش رہا۔ اس دوران درس نظامی سے صرف، فلسفہ، معقول، ریاضی اور فقہ کی آخری کتب اور حدیث شریف میں صحاح ستہ اور تفسیر میں بیضاوی وغیرہ باقی رہ گئی تھیں۔ ان کتب کی تعلیم کیلئے اس زمانے میں عام طور پر طالبان علوم لکھنؤ، دیوبند، رام پور، علی گڑھ، دہلی اور سہارنپور کے مدرسوں سے رجوع کیا کرتے تھے۔ لکھنؤ میں مولانا عبد الحئی صاحبؒ مرجع خلائق تھے، آپ ایک معروف استاد کامل اور عالم دین تھے۔ آپ کی وفات 1304ھ میں ہوئی۔ اس طرح دارالعلوم دیوبند کا بھی اپنا ایک مقام تھا۔ یہ دارالعلوم 1383ء میں قائم ہوا تھا۔ اس دارالعلوم کے مدرس اعلیٰ اور سرپرست مولانا محمد قاسم نانو تویؒ صاحب تھے۔ دیوبند دارالعلوم میں مولوی محمد یعقوب خلف الرشید مولانا مملوک علی صاحبؒ، مولوی مملوک علی صاحبؒ، مولوی رشید احمد گنگوہیؒ، مولانا ذوالفقار علیؒ جیسے جید اساتذہ موجود تھے۔
رام پور میں مولانا احمد حسنؒ استاد تھے جو کہ مولانا لطف اللہ علی گڑھیؒ کے شاگرد رشید تھے، آپ حضرت حاجی امداد اللہؒ مہاجر مکی کے مرید خاص تھے۔ علی گڑھ میں حضرت مولانا لطف اللہ صاحبؒ ایک استاد کامل کی حیثیت سے عمدہ شہرت رکھتے تھے۔ آپ مفتی عنایت احمدؒ کے شاگرد رشید تھے۔ اب آپ غور فرمائیں! ان بڑے بڑے علمائے وقت کی ایک طویل فہرست جب سامنے ہو تو بندہ سوچ بچار پر مجبور ہو جاتا ہے کہ آخر کس شہر میں حصول علم کیلئے جائے۔ خیر ان سب عوامل پر غورو فکر کے بعد حضرت صاحبؒ نے رخت سفر باندھا اور سب سے آپ نے کانپور میں مولانا احمد حسن صاحبؒ محدث سے رجوع کیا۔ اب اسے اتفاق کہئے کہ ان ایام میں مولانا صاحب حج کی تیاری میں مشغول تھے، جب آپ نے اپنا ارادہ ظاہر کیا تو کہنے لگے کہ میاں صاحبزادے میں تو آج سے آٹھ دس دن کے بعد حج کیلئے روانہ ہو رہا ہوں۔ اس عرصہ میں دوچار اسباق اگر تم پڑھ بھی لو، اس سے حاصل کچھ نہ ہوگا۔ چنانچہ آپ وہاں سے سیدھے علی گڑھ پہنچے، جہاں مولانا احمد حسنؒ کے استاد گرامی جناب مولانا لطف اللہؒ مدرس تھے۔ علی گڑھ میں حضرت صاحب نے ڈھائی برس کے لگ بھگ تعلیم حاصل کی۔ حضرت صاحبؒ کو اپنی قابلیت، عمدہ اخلاق اور اعلیٰ کردار کی وجہ سے بہت مقبولیت اور عزت حاصل ہوئی۔ ان کی عزت و تکریم کرنے والوں میں مولانا لطف اللہ، اساتذہ کرام اور وہاں پر تمام طلباء شامل تھے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post