صحابہ کرامؓ میں دو باتیں بہت خاص تھیں۔ ایک تو عشق نبویؐ میں ان کو نکتہ کمال حاصل تھا اور دوسرا اتباع رسولؐ میں ان کو انتہا کا مقام نصیب تھا۔
حدیث پاک میں آتا ہے کہ: نبی کریمؐ جب جنت میں تشریف لے گئے تو کسی کے چلنے کی آواز آرہی تھی، دریافت فرمایا: جبرائیلؑ یہ آواز کیسی؟ جبرائیلؑ کہنے لگے: اے خدا کے محبوبؐ! آپ کے غلام بلالؓ کے چلنے کی آواز ہے۔ حق تعالیٰ کے ہاں وہ مرتبہ ہے کہ زمین پر چلتے ہیں، عرش پہ آواز سنائی دیتی ہے۔
ایمان کی وجہ سے انسان کی عزت و عظمت ہے۔ ایمان نہیں تو قریبی رشتہ داری بھی کوئی فائدہ نہیں دے گی، حتیٰ کہ وقت کے نبی کا بیٹا ہو، وقت کے نبی کا باپ ہو، وقت کے نبی کا چچا ہو، ایسی رشتہ داری کوئی فائدہ نہیں دیتی۔ مثال کے طور پر: حضرت نوحؑ وقت کے پیغمبر ہیں، بیٹے کو سمجھاتے ہیں:
ترجمہ ’’اے بیٹے! ہمارے ساتھ چڑھ جائو اس کشتی پر ہمارے ساتھ رہو آجائو کافروں کے ساتھ نہ رہنا۔‘‘ (ہود: 42)
وہ کہنے لگا: ’’میں پہاڑ پہ چڑھ جائوں گا پانی سے بچ جائوں گا۔‘‘
فرمانے لگے: ’’بیٹے آج تجھے خدا کے حکم کے سوا کوئی چیز نہیں بچا سکے گی۔‘‘
اگلی بات کر ہی رہے تھے: ایک لہر اٹھی اور وقت کے نبی کے سامنے ان کا بیٹا پانی میں غرق ہو گیا۔ رشتہ داری کام نہ آئی۔ (ہود:43)
آزر حضرت ابراہیمؑ کا والد ہے، مگر باپ ہونے کا ناتا کام نہ آیا۔ابولہب نبی اکرمؐ کا چچا، مگر ہلاک ہو گیا۔ قریبی رشتہ داریاں ہیں، مگر ایمان نہ ہونے کی وجہ سے کام نہیں آرہے۔ ہاں! قریبی رشتہ داری ہو اور ایمان بھی تو یہ چیز ’’نور علی نور‘‘ ہو جاتی ہے۔
٭٭٭٭٭
Next Post