سرفروش

0

عباس ثاقب
میں کیمرا اس کے حوالے کرکے وہاں سے نکل آیا اور باقی کا دن معمول کے مطابق ٹیکسی چلانے میں گزرا۔ شام کو مقررہ وقت سے کافی پہلے ہی سچن کے ٹھکانے کی طرف چل دیا۔ میں ابھی کولابا سے نیوی نگر کی طرف جانے والی سڑک پر مڑکر کچھ آگے بڑھا ہی تھا کہ میری نظر ایک طرف کھڑی ہوئی ایک ٹیکسی پر پڑی۔ اس کا ہڈ اٹھا ہوا تھا اور ڈرائیور انجن پر جھکا ہوا تھا۔ میں ابھی اس ٹیکسی سے بیس پچیس گز کے فاصلے پر تھا کہ ڈرائیور گاڑی کے پیچھے سے نکل کر سڑک کے کنارے آگیا۔ میری ٹیکسی کی ہیڈ لائٹ کے علاوہ نزدیکی کھمبے کے قمقمے کی روشنی بھی اس کی شکل نمایاں کررہی تھی، وہ اسلم تھا۔ اس نے مجھے کوئی اشارہ نہیں کیا، تاہم میں اس کی یہاں موجودگی کا مطلب سمجھ سکتا تھا۔
میں نے فرلانگ بھر آگے جا کر ٹیکسی واپس موڑ لی۔ میرے پہنچنے تک اسلم بھی ٹیکسی کا ہڈ بند کرنے کے بعد اسے موڑ کر دھیمی رفتار سے کولابا مارکیٹ کی طرف بڑھا دیا تھا۔ دونوں ٹیکسیاں آگے پیچھے چلتی رہیں۔ ہم ہنومان مندر کے سامنے سے گزرے اور پھر اسلم نے بائیں طرف کھار دیوی آئی مندر کی طرف جانے والی چھوٹی سی سڑک پر ٹیکسی موڑ لی اور ایک موڑ سے گھوم کر ویران سے ساحل کی طرف جانے والے کچے راستے پر پہنچ کر ٹیکسی روک دی۔ وہاں روشنی خاصی کم تھی۔ میں کچھ پیچھے گاڑی روک کر اسلم کی ٹیکسی کی طرف بڑھا۔
میں نے ٹیکسی کا پچھلا دروازہ کھلتے دیکھا۔ میں جیسے ہی قریب پہنچا، ٹیکسی کی عقبی نشست سے ایک خوش گوار آواز نے میرا خیر مقدم کیا ’’آجائیں میرے نوجوان دوست، بہت اشتیاق ہے آپ سے ملاقات کا !‘‘
میں نے دیکھا کہ پچاس، پچپن سال کے ایک خوش پوش، گورے چٹے صاحب ٹیکسی کی عقبی نشست پر براجمان ہیں۔ مجھے ان کے چہرے پر ایسی شوخ لیکن گرم جوشی سے بھرپور مسکراہٹ نظر آئی کہ میں نے بے اختیار مصافحے کیلئے بڑھا ہوا ان کا ہاتھ تھام لیا۔ انہوں نے کہا ’’میں فرحان عادل ہوں… افتخار کا معاون۔ سچ مانیں، آپ سے ملنے کا اشتیاق مجھے یہاں کھینچ کر لے آیا ہے۔‘‘
میں نے جوابی گرم جوشی سے کہا ’’مجھے بھی آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ آپ سب کی حوصلہ افزائی میرے لیے باعث ِ فخر ہے۔‘‘
انہوں نے بدستور میرا ہاتھ تھامے رکھتے ہوئے کہا ’’خواہش ہے کہ آپ سے دل کھول کر بات کروں، خصوصاً پنجاب اور دلّی میں آپ کے کارنامے آپ کی زبانی سننے میں بہت مزا آجائے گا۔ لیکن یہ وقت اور علاقہ ایسا نہیں ہے کہ ہم زیادہ دیر خوش گپیاں کرسکیں۔ آپ افتخار صاحب کا یہ تحفہ قبول کریں اور مجھے اجازت دیں۔‘‘
میں نے چونک کر ان کے بائیں ہاتھ میں موجود گتے کے چمکیلے اور لمبوترے کارٹن پر نظر ڈالی اور پھر سوالیہ نظروں سے فرحان عادل کی طرف دیکھا۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا ’’کیلورٹ ریزرو امریکن بلینڈڈ وسکی ہے۔ آپ کو یقیناً پسند آئے گی۔ جانی واکر بلیک لیبل کو بھول جائیں گے۔‘‘
مجھے ایک لمحے کیلئے سمجھ نہ آیا کہ افتخار صاحب کے اس مذاق پر کیا ردِ عمل ظاہر کروں۔ تبھی فرحان عادل کے چہرے پر پہلے شوخ مسکراہٹ لہرائی اور پھر گاڑی میں ان کا دبا دبا سا قہقہہ گونجا ’’معاف کرنا یار، میں بعض اوقات بے موقع مذاق کرگزرتا ہوں۔ یہ بوتل سچن کے لیے ہے۔‘‘
میں نے جھینپی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ بوتل ان سے لے لی۔ انہوں نے کہا ’’اس بوتل کے حوالے سے افتخار صاحب کی مزید ہدایت سن لیں، جیسا کہ قوی امید ہے کہ سچن کافی ساری فائیلیں ساتھ لے کر آیا ہوگا۔ تصدیق ہونے پر آپ کو کوشش کرکے اس شراب کا کم از کم ایک جام اپنی نظروں کے سامنے اسے پلانا ہے۔ دوسرا وہ خود پیے گا اور تیسرے سے پہلے مدہوش ہوجائے گا کیونکہ ہم نے اس بوتل میں خواب آور دوا انجیکٹ کررکھی ہے۔ اس کے بعد آپ خود ان تمام فائلوں میں موجود زیادہ سے زیادہ دستاویزات کی تصویر اتاریں گے اور پھر کیمرے سے فلم رول نکال کر نیا رول ڈالنے کے بعد وہاں سے نکل آئیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ اس طرح کوئی اضافی معلومات ہمارے ہاتھ لگ جائیں !‘‘
میں نے ان کی ہدایت پر لفظ بہ لفظ عمل کرنے کا یقین دلایا۔ اس دوران اسلم ہماری گفتگو میں دخل دینے کے بجائے چپ چاپ مسکراتا رہا۔ مزید چند باتیں کرنے کے بعد انہوں نے مجھے رخصت ہونے کی اجازت دی۔ میں نے وہ بوتل ایک کپڑے میں لپیٹ کر اپنے قدموں میں رکھ لی اور ٹیکسی موڑ کر واپس نیوی نگر کی طرف چل پڑا۔
سچن کے گھر کی طرف جانے والی تنگ سڑک پر پہنچتے ہی میں ٹیکسی کی رفتار کم کردی۔ میری نظریں تیزی سے اردگرد کا جائزہ لے رہی تھی۔ اس کے ساتھ میں سوچ رہاتھا کہ کیا آج بھی میں بغیر کسی مشکل کے سچن کے سر پر سوار ہوکر اپنے اشاروں پر اسے چلانے اور اپنا کام نکلوانے میں کامیاب ہوجاؤں گا۔ دراصل مجھے تمام دن دھڑکا لگا رہاتھا کہ کہیں اس نے خوف زدہ ہوکر فائلیں چھپاکر گھر لانے کا ارادہ ترک نہ کردیا ہو، یا اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ کہ کہیں وہ اپنی اس سرگرمی کے دوران پکڑا نہ گیا ہو۔ ایسی صورت میں قوی امکان یہ تھا کہ شکاری اس کے گھر پر جال بچھائے بے تابی سے میرا انتظار کررہے ہوں گے۔
اپنے دل میں کلبلاتے ان ہی خدشات کے پیش نظر میں نے ٹیکسی براہ راست سچن کے گھر کے سامنے لے جاکر کھڑی کرنے کے بجائے لگ بھگ ایک سو گز پہلے روک دی ۔
میں آس پاس کا جائزہ لیتے ہوئے پیدل چلتا ہوا سچن کے کوارٹر کے قریب واقع باغیچے میں داخل ہوا اور پھر درختوں کے ایک جھنڈ کے درمیان خود کو پوشیدہ رکھتے ہوئے گہری نظروں سے گیٹ اور گرد و نواح کا جائزہ لینے لگا۔ میں کوشش کے باوجود وہاں کوئی غیر معمولی سرگرمی بھانپنے میں ناکام رہا۔ کچھ انتظار کے بعد میں نے خطرہ مول کر قریب سے کوارٹر کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ۔
میں چہل قدمی کے انداز میں سچن کی قیام گاہ کے سامنے سے گزرا اور پچاس گزآگے جانے کے بعد واپس پلٹا اور ایک بار پھر گیٹ کے سامنے سے گزرا۔ اس دوران بھی میری نظریں خطرے کی کوئی علامت تلاش کرنے میں ناکام رہیں۔ سچن کی کار معمول کے مطابق مجھے سامنے کوارٹر کے احاطے میں کھڑی نظر آئی تھی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More