شہید کربلا کے کارنامے

0

شہید کربلا حضرت سیدنا حسینؓ کی عمر مبارک ابھی ساڑھے سات برس تھی کہ والدہ محترمہ خاتون جنت حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراؓ کا انتقال ہو گیا اور آپؓ حضور اکرمؐ جیسے شفیق ترین نانا کے بعد حضرت فاطمہؓ جیسی شفیق ترین ماں کی مامتا اور سایہ سے محروم ہوگئے۔ لیکن حضرت علیؓ جیسے شفیق ترین باپ کی پدرانہ شفقت نے آپؓ کا غم غلط کر دیا اور آپؓ کی کامل تربیت فرمائی۔ سیدنا حسینؓ قرآن کریم کے حافظ بن گئے۔ حضور کریمؐ کی احادیث اور قرآن کریم کے معانی پر آپؓ کی خاصی نگاہ تھی۔ اطاعت الٰہی اور اتباع نبویؐ میں کامل تھے۔ تقویٰ، طہارت اور حق گوئی وبے باکی اور جہاد آپؓ کا شعار تھا۔ دور صدیقیؓ اور عہدِ فاروقیؓ میں آپؓ نو عمر تھے۔ البتہ حضرت عثمانؓ کے عہد میں آپؓ اچھے جوان اور سپاہی تھے۔ چنانچہ فتح طبرستان کے لشکر میں جو حضرت سعید بن العاصؓ کی سرکردگی میں گیا تھا، آپ سرفروشانہ شریک تھے۔ حضرت عثمانؓ کے مکان کو جب باغیوں نے گھیر لیا تھا تو ان کی حفاظت کے لیے حضرت علیؓ نے آپؓ کو مقرر کیا تھا۔ لیکن باغی کسی دوسری جانب سے مکان میں داخل ہو گئے اور حضرت عثمانؓ کو شہید کر دیا۔ حضرت حسینؓ حضرت عثمانؓ کی حفاظت کے لیے دروازے پر پہرہ دیتے رہے، باغیوں کے اندر داخل ہونے کا انہیں پتہ نہیں چل سکا۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت کی خبر سن کر جب حضرت علیؓ وہاں آئے تو انہوں نے حضرت حسینؓ کو اس بات پر ڈانٹا۔ مگر باغی ایسے راستے سے اندر داخل ہوئے تھے، جس کا حضرت حسینؓ کو علم نہیں تھا۔ دور حیدریؓ میں آپؓ برابر اپنے والد حضرت علیؓ کا دست و بازو رہے۔ حضرت علی المرتضیٰؓ کی شہادت (40ھ) کے بعد اپنے بڑے بھائی حضرت حسنؓ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں میں آپؓ آگے آگے تھے، لیکن جب چھ ماہ بعد وہ حضرت امیر معاویہؓ کے حق میں دست بردار ہو گئے تو حضرت حسینؓ نے بھی اپنے بڑے کے احترام میں ان کا ساتھ دیا۔ حضرت فاروق اعظمؓ نے جب تمام مسلمانوں کے وظیفے مقرر کیے تو حضرت حسینؓ کا وظیفہ پانچ ہزار درہم سالانہ مقرر فرمایا۔ حضرت عثمانؓ کے دور میں یہ وظیفہ آپ کو برابر ملتا رہا۔ یہ وظیفہ حضرت امیر معاویہؓ نے اپنے دور میں دس لاکھ درہم تک بڑھا دیا، جو حضرت حسینؓ کو برابر ملتا رہا۔ حضرت حسنؓ حضرت امیر معاویہؓ کے حق میں خلافت سے دستبردار ہو گئے تو اس طرح مسلمان ایک بار پھر متحد ہو گئے اور وہ تلوار جو اعلائے کلمۃ الحق کے لیے وقف تھی اور بدقسمتی سے حضرت عثمانؓ کی شہادت سے اس کا رخ خود مسلمانوں کی طرف ہو گیا تھا اور پورے دور حیدریؓ میں مسلمان اپنا ہی خون بہانے میں مصروف رہے تھے، وہ تلوار پھر جہاد، اعلائے کلمۃ الحق اور اتحاد ملت کیلئے وقف ہو گئی۔ یہ سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ کا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔ مسلمانوں کے اس باہمی اتفاق واتحاد کے بعد اسلام کی اشاعت جو مسلمانوں کی باہمی چپقلش کی وجہ سے موقوف ہوگئی تھی، ایک بار پھر شروع ہو گئی اور مسلمان یکسو ہو کر اشاعت اسلام اور جہاد کے مشن پر جت گئے۔ حضرت حسینؓ نے اپنے علم و فضیلت، تقویٰ وطہارت کے باوجود سیاست میں حصہ لیا، بلکہ میدان کربلا میں اپنی جان دے کر اسے صحیح رُخ پر لانے کی کوشش فرمائی۔ اس طرح آپؓ نے دین کے صحیح تصور کو قائم اور باقی رکھنے، زندہ اور تازہ کرنے کی کوشش کی۔ یہ آپؓ کا عظیم کارنامہ ہے۔ آپؓ کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ سیاسی پہلو میں شورائیت اور انتخابات کے بجائے جو نامزدگی اور ولی عہدی کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا، اس کے خلاف آواز اٹھا کر اور تحریک چلا کر، بلکہ اپنی اور اپنے خاندان کی قربانی دیکر یہ ثابت کر دیا کہ دین کے کسی پہلو میں بھی بدعت سر اٹھائے تو اسے کسی حال میں برداشت نہیں کرنا چاہیے۔ ایک کارنامہ آپؓ کا یہ ہے کہ اگرچہ رخصت کی راہ کھلی ہوئی تھی، مگر آپؓ نے عزیمت کی راہ اختیار کر کے رہتی دنیا تک کے مسلمانوں کیلئے سنگ میل قائم کیا کہ اسلامی خلافت باقی رکھنے کیلئے اور اسے ملوکیت کی راہ پر جانے سے روکنے کیلئے عزیمت کی راہ اپنانا چاہیے اور اپنا خون دیکر اسے صحیح صورت پر لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ حضرت حسینؓ نے عین شہادت سے کچھ لمحے پہلے حکم خداوندی کو بجا لاتے ہوئے نماز ادا فرمائی۔ جس سے امت کو یہ پیغام ملا کہ سخت ترین حالات میں بھی نماز کو نہیں چھوڑا جاسکتا۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More