یکم ستمبر 1965ء کو پاکستان ایئر فورس کے ہاتھوں چار بھارتی طیاروں کی تباہی اور ان کے ہوا بازوں کی ہلاکتوں کے بعد نورخان نے دور اندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے مستقبل کی ممکنہ صورت حال کا حقیقی اور درست انداز میں تجزیہ کرکے جنگ کیلئے ایک درست حکمت عملی ترتیب دی۔ نورخان ان انڈین طیاروں کی تباہی کے بعد کسی خوش فہمی کا شکار نہ تھے۔ انہیں علم تھا کہ انڈین ایئر فورس کہیں زیادہ بڑے پیمانے پر حملوں کی صلاحیت رکھتی ہے۔ چنانچہ انہیں اس بات کا اچھی طرح سے ادراک تھا کہ پاکستان ایئر فورس کیلئے اصل خطرہ رات نہیں، بلکہ دن کی روشنی میں انڈین ایئر فورس کے حملوں سے ہے۔ چنانچہ انڈین ایئر فورس کے حملوں کا انتظار کرنا حماقت تھی، کیونکہ اگر وہ سرگودھا ریڈار سسٹم کو تباہ کر دیتی تو پھر پاکستان ایئر فورس کیلئے جنگ جاری رکھنا ممکن نہ ہوتا، کیونکہ پاکستان ایئر فورس یہ نقصان برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی تھی۔
سب سے اہم سوال یہ تھا کہ انڈین ایئر فورس کے بھرپور حملے کی صورت میں پاکستان ایئر فورس ثابت قدم رہ سکے گی؟ اگر غیر محفوظ تنصیبات کو ناکارہ کر دیا گیا تو کیا پاکستان ایئر فورس اپنی اس قوت سے محرومی کا نقصان برداشت کر پائے گی؟ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ انڈین ایئر فورس کی طرح ذرا بچ کر کھیل میں حصہ لیا جائے تاکہ پاکستان ایئر فورس ایک قوت کے طور پر اپنا وجود برقرار رکھ سکے؟ نورخان کو اس حقیقت کا بھی ادراک تھا کہ انڈین ایئر فورس کسی تصادم کی صورت میں جنگ کے ابتدائی دنوں میں کافی زیادہ نقصانات برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، جبکہ اس کے برعکس اگر طیاروں کا نقصان پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک کے مقابلے میں چار بھی رہے تو بھی پاکستان ایئر فورس ابتدائی دنوں میں اتنے نقصان کو برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی تھی۔
بھارت کے ایئربیسز پر حملوں میں پہل کرنے کا فیصلہ نور خان نے انہی خطرات کا ادراک کرتے ہوئے کیا تھا، جو یقیناً ایک بہت زیادہ دلیرانہ فیصلہ تھا۔ کیونکہ اس منصوبے پر عمل کرنے کی صورت میں خطرات کی نوعیت بھی بہت زیادہ شدید نوعیت کی تھی، لیکن دوسری صورت میں بے عملی یا بھارتی ایئر فورس کے حملوں کا انتظار کرنا اس سے بھی زیادہ خطرناک اور شدید نتائج کا حامل ہو سکتا تھا۔ چنانچہ نور خان نے بھارتی ایئر بیسز پر حملوں میں پہل کرنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان ایئر فورس کے حملوں کا پلان کچھ یوں ترتیب دیا گیا تھا:
1۔ سرگودھا سے آٹھ طیاروں کو بھارتی ایئر بیس آدم پور پر حملہ کرنا تھا۔
2 ۔ سرگودھا سے ہی آٹھ طیاروں کو بھارتی ایئر بیس پلواڑہ پر حملہ کرنا تھا۔
3۔ سرگودھا سے ہی چار عدد T-33 طیاروں کو فیروز پور ریڈار پر حملہ کرنا تھا۔
4۔ سرگودھا سے ہی چار عدد Elint RB-57 طیارے کے ساتھ چھ عدد سیبر طیاروں کو امر تسر ریڈار پر حملہ کرنا تھا۔
5۔ پشاور سے آٹھ عدد سیبر طیاروں کو بھارتی ایئر بیس پٹھان کوٹ پر حملہ کرنا تھا۔
6۔ کراچی سے آٹھ عدد سیبر طیاروں کو بھارتی ایئر بیس جام نگر پر حملہ کرنا تھا۔
7۔ کراچی سے چار عدد T-33 طیاروں کو بھارت کے پور بندر ریڈار پر حملہ کرنا تھا۔
8۔ کراچی سے بارہ عدد B-57 بمبار طیاروں کو جام نگر پر حملہ کرنا تھا۔
کیونکہ سیبر طیارے بری فوج کی معاونت کے ساتھ بھارتی فوج پر حملے بھی کر رہے تھے، لہٰذا معمولی نقصانات کے باعث ان طیاروں کو مرمت کی بھی ضرورت تھی، جبکہ فضائی دفاع کیلئے بھی سیبر طیارے درکار تھے۔ چنانچہ مین کمانڈز نے نورخان کو تمام صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ان حملوں کو کم از کم چوبیس گھنٹوں کیلئے مؤخر کیا جائے تاکہ سرگودھا سے 20 عدد طیارے ان حملوں کیلئے فراہم کئے جا سکیں، لیکن نورخان نے حالات کی سنگینی اور بھارتی ایئر فورس کو حملے کا موقع دینے سے پیشتر یہ طے کیا کہ حملے منصوبے کے مطابق ہی کئے جائیں، خواہ ان کیلئے طیاروں کی کم تعداد ہی دستیاب کیوں کہ ہو۔ چنانچہ گروپ کپیٹن ظفر مسعود کو حکم دیا گیا کہ طیاروں کی کمی کے باوجود منصوبے پر عمل کیا جائے۔ نور خان کو اندازہ تھا کہ غروب آفتاب کے بعد بھارتی ایئر فورس سرگودھا اور کراچی پر حملہ کرے گی۔ چنانچہ اسے پیشگی حملوں کا نشانہ بنانا ضروری ہے۔
مختصر یہ کہ نور خان کے پیشگی حملوں، 7 ستمبر 1965ء کو سرگودھا پر ناکام حملے اور حملہ آور بھارتی طیاروں کی ایم ایم عالم کے ہاتھوں تباہی نے پاکستان ایئر فورس کو عظیم فضائی برتری عطا کی اور بھارتی ایئر فورس پاکستان ایئر فورس سے مقابلہ کرنے میں گھبرانے لگی۔ پاکستان ایئر فورس کی فضائی برتری نے جنگ کے اختتام تک بھارتی فضائیہ کو سنبھلنے کا موقع نہ دیا۔ پاکستانی طیاروں نے بھارتی طیاروں کو مکمل طور پر آؤٹ کلاس کیا۔ عملاً پاکستان ایئر فورس کے محض 25 فیصد سے بھی کم طیاروں میں ابتدائی ماڈل کے GAR-8 سائیڈ ونڈو ایئر ٹوایئر میزائل نصب تھے، لیکن نورخان کی دور اندیشی کے سبب ان طیاروں کو اس طرح ترتیب دیا گیا تھا کہ بھارتی ایئر فورس کے جس طیارے کا بھی پاکستانی طیارے سے سامنا ہوا، اسے اس نے سائیڈ ونڈر میزائلوں سے لیس پایا۔ چنانچہ بھارتی ایئر فورس اس تصور سے اپنا مورال ڈاؤن کر بیٹھی کہ پاکستان کے تمام طیارے میزائلوں سے لیس ہیں، جس کے بعد بھارتی طیارے پاکستانی طیاروں کا سامنا کرنے سے کترانے لگے۔
گو ابتدائی ماڈل کے امریکی ساختی GAR-8 سائیڈ ونڈر ایئر ٹو ایئر میزائل اتنے ایڈوانسڈ نہ تھے اور نہ ہی ان کا Kill Ratio ہی بہت اچھا تھا، لیکن پاکستان ایئرفورس ان میزائلوں کے باعث بھارتی نیٹر طیاروں کے مقابلے میں سیبر کی کم رفتار اور کمتر بلندی پر پرواز کی خامیوں کو جزوی طور پر دور کرنے سے کامیاب ہوگئی تھی۔ اپنی اعلیٰ کارکردگی کے باعث بھارتی ایئر فورس کے نیٹر طیارے سی بھی فضائی معرکیمیں اپنی مرضی کے مطابق نکلنے کی صلاحیت رکھتے تھے، لیکن سائیڈ ونڈر کی دو سیل کی رینج نے ان کی اس تکنیکی برتری کو زائل کردیا۔ چنانچہ اگر بھارتی نیٹر کسی مقابلے میں پھنس گئے تو انہیں سیبر طیاروں کی مسلط کردہ شرائط پر ہی جنگ لڑنا پڑی اور سیبر کو اس کی کم رفتار والی لاجواب حکمت عملی کے استعمال کا موقع دینا پڑا۔
جنگ کے اختتام پر نورخان نے پاکستان ایئر فورس کو ازسرنو لیس کرنے کی خاطر بہت محنت کی اور فرانس اور چین سے جدید ترین طیارے حاصل کئے۔ نورخان نے جرمن ایئر فورس کے استعمال شدہ 90 عدد سیبر طیارے ایران کے راستے حاصل کئے اور رینڈا انجنوں سے لیس یہ طیارے جرمن ایئر فورس ریٹائر کر رہی تھی۔ اسی طرح نورخان نے چین سے 75 عدد F-6 فائٹر طیارے بھی حاصل کئے۔ اس کے علاوہ انہوں نے فرانس سے 35 عدد میراج3- قسم کے جدید سپر سانک طیارے بھی حاصل کئے۔ پاکستان ایئر فورس میں 280 عدد لڑاکا طیاروں کی شمولیت کے بعد اس کی قوت میں تین گنا اضافہ ہوگیا تھا، لیکن نور خان پھر بھی مطمئن نہ تھے۔ انہوں نے ایئر بیسز اور ریڈار تنصیبات کی خامیوں کو دور کرنے کا بھی بیڑہ اٹھایا، کیونکہ ان خامیوں کا ادراک جنگ ستمبر کے دوران ہوا تھا۔ اس مقصد کیلئے نور خان نے میانوالی، مرید کے، حافظ آباد، جیکب آباد، بدین اور شور کوٹ میں چھ ایئر بیسز کی تعمیر کا آغاز کیا اور اس کے ساتھ ساتھ دشمن کی آمد کی پیشگی وارننگ دینے والے کئی مراکز بھی قائم کئے۔
نور خان میں ایک مربی ہوا باز کی پیدائشی صفات موجود تھیں اور پرواز کے دوران جارحانہ انداز اختیار کرنا ان کی فطرت کا حصہ تھا، لیکن انہوں نے اس کے علاوہ ایئر ہیڈ کوارٹرز میں اپنی میز پر بیٹھ کر شاطرانہ حکمت عملی اور فوجی تنظیم کے مسائل سمجھنے اور ان سے انتہائی مؤثر انداز میں نمٹنے کی صلاحیت کا بہترین مظاہرہ کیا۔ قسمت صرف جرأت مندوں کو سپورٹ کرتی ہے۔ نورخان حقیقتاً اس کی زندہ مثال تھے۔
٭٭٭٭٭
Prev Post