ایک مسلمان ملک میں باپ کی وراثت سے بیٹی کو معاشی ملکیت بھلے آدھی ملے، مگر سیاسی ملکیت مکمل ملتی ہے۔ شیخ حسینہ سے لے کر بینظیر بھٹو تک والد کا سیاسی پرچم اٹھا کر جن بیٹیوں نے اقتدار کی مسند حاصل کی، اب ان میں تاریخ ایک اور نام کا اضافہ کرنا چاہتی ہے۔ وہ نام اس مریم کا ہے، جو باسودے کی مریم نہیں۔ وہ مریم جو کل تک ’’مریم صفدر‘‘ کے نام سے لکھی، پڑھی اور پکاری جاتی تھی، مگر اب اس کی پہچان ’’مریم نواز‘‘ ہے۔ مریم صفدر ایک عام عورت تھی۔ مریم نواز ایک ابھرتی ہوئی سیاستدان ہے۔ ایک ایسی سیاسی اسٹار جس نے مقبولیت کی قیمت بہت کم ادا کی ہے۔ جب کوئی کالم نگار یا کوئی سیاسی مبصر مریم نواز کا موازنہ بینظیر بھٹو سے کرتا ہے تو پیپلز پارٹی کے رہنما ناراض ہو جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بینظیر بھٹو کم عمری میں کڑے امتحانوں سے گزری۔ اس کی سیاسی سی وی (CV) میں سکھر جیل کی تپی ہوئی بیرک نہیں تھی۔ شرجیل میمن جیسے پیراٹوپر سیاسی لیڈروں نے تو سب جیل کو ایک مذاق بنا دیا ہے، مگر جب مارشل لا کے دنوں میں بینظیر بھٹو کے آبائی گھر ’’المرتضیٰ‘‘ کو سب جیل کا درجہ دیا گیا تو اس وقت واقعی وہ سب جیل تھا۔ وہ گھر جس میں ایک لڑکی نے کئی موسم دیکھے تھے۔ اس گھر کے چمن میں برسوں تک ایک موسم ٹھہر گیا۔ جبر کا موسم، صبر کا موسم!
پھر مزاحمت کا موسم بھی اس گھر کے درختوں پر سرخ پھولوں کی صورت پیدا ہوا اور پھر اقتدار کی بجلی اقدار کے اوپر کیسے گری؟ پھر کیا ہوا؟ کیوں ہوا؟ ان سوالات میں پاکستان کی سیاسی تاریخ اب تک الجھی ہوئی ہے۔ جب یہ وقت گزر جائے گا۔ جب پیپلز پارٹی زرداری کے سائے سے نکل آئے گی، تب مؤرخ ایک نہیں، بلکہ دو بینظیروں کی بات کرے گا۔ ایک ’’بینظیر قبل از زرداری‘‘ اور دوسری ’’بینظیر بعد از زرداری‘‘ آصف زرداری سے رشتہ استوار کرنے سے قبل بینظیر بھٹو کے سارے رشتے ان کارکنوں سے تھے، جن کے کچے گھروں میں بینظیر دو دو گھنٹے بیٹھی رہتی تھی۔ جن سے باتیں کرتی تھی۔ جن کے دکھ درد سنتی تھی۔ وہ پھیکے رنگوں والی تصاویر اب بھی پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے پاس موجود ہیں۔ وہ تصاویر اب تک وہی ہیں، باقی وقت کے ساتھ بہت کچھ بدل گیا ہے۔ شاید سب سے پہلے بدلی وہ بینظیر بھٹو جو زرداری سے شادی کرنے کے بعد اقتدار کے قریب اور عوام سے دور ہوتی گئی۔
بینظیر کی بات ایک افسانوی کالم میں سمانا ممکن نہیں ہے۔ کاش کوئی سیاسی ادیب بینظیر بھٹو کی سیاسی اور ذاتی زندگی پر ایک تحقیقی اور تخلیقی ناول لکھ کر ہمیں بتائے کہ سیاسی عظمت کا عروج اور زوال کی کہانی کس طرح بیان کی جاتی ہے۔ پنکی جیسے ہلکے پھلکے نک نیم سے لے کر ’’دختر مشرق‘‘ جیسے بھاری بھرکم اعزاز تک ایک پوری داستان سیاسی مفادات تلے دبی ہوئی ہے۔ مگر بینظیر بھٹو کی بات کہاں کر رہے تھے؟ ہم نے اس کی محض ایک مثال دی، مگر اس کا تذکرہ اکثر ایک تکرار کی صورت اختیار کرجاتا ہے۔ بینظیر بھٹو جسمانی طور پر اس دنیا میں نہیں ہے، مگر سیاسی طور پر ان کا کردار مثال کی صورت پیش ہوتا رہے گا۔ جب بھی ہم کسی سیاسی خاندان کی خاتون رہنما کی بات کریں گے۔ جب بھی ہم سیاستدان باپ کی سیاستدان بیٹی کا ذکر کریں گے، تب ہمیں اس راستے سے گزرنا پڑے گا، جس پر بینظیر بھٹو کے نام کا سیاسی سائن بورڈ آویزاں ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ آج پھر اس موڑ پر کھڑی ہے، جہاں ایک بیٹی اپنے والد کی انگلی پکڑ کر سیاسی سفر شروع کر چکی ہے۔ وہ بیٹی خوش نصیب ہے۔ کیوں کہ کڑی دھوپ والے اس سیاسی سفر میں اس کے سر پر صرف آنچل نہیں، بلکہ والد کی شفقت کا سایہ بھی ہے۔ دنیا درد کا دوسرا نام
ہے۔ سیاسی دنیا تو صرف درد نہیں، بلکہ دھوکوں سے بھری ہوئی ہے۔ اس ماحول میں ایک بیٹی کا سیاسی سفر قدرے آسان ہو جاتا ہے، جب اس کے ساتھ اس کے والد بھی ہوں۔ اگر مریم کے ساتھ میاں نواز شریف کا ساتھ نہ ہوتا تو اس کے لیے سیاست کا سفر بہت کٹھن بن جاتا۔ مگر وہ سب کچھ آسانی سے طے ہو رہا ہے، جو بہت مشکل ہوتا۔ بات صرف حالات کی نہیں۔ سیاست میں حالات جتنی اہمیت وقت کی بھی ہوا کرتی ہے۔ اگر مریم کے سیاسی استاد اس کے والد نہ ہوتے تو اسے سیاسی اسباق سمجھنے اور یاد کرنے میں بہت زیادہ وقت لگ جاتا۔ وہ سیاسی سفر جو برسوں کا تھا، مریم نواز نے وہ صرف چند ماہ میں طے کیا ہے۔ میاں نواز شریف کے قریبی ساتھیوں اور ان کے خیر اندیشوں کو بھی شک تھا کہ مریم اپنے کندھوں پر ایک بہت بڑی پارٹی کا بوجھ اٹھا سکتی ہے؟ مگر وہ اس آزمائش میں اب تک کامیاب رہی ہے۔ وہ نہ صرف اپنے والد کے ساتھ احتساب کی آزمائش میں ثابت قدمی کے ساتھ کھڑی رہی، بلکہ جیل جاتے ہوئے بھی اس کے چہرے پر کسی پریشانی کی پرچھائی نظر نہیں آئی۔ سکھ اور آرام کی آغوش میں بڑی ہونے والی لڑکی جیل سے پیرول پر اس وقت رہا ہوئی، جب اس کی والدہ کا تابوت اس کے گھر کے آنگن میں اس کے ہاتھوں کی لمس لے کر زمین میں دفن ہونے کے لیے منتظر پڑا تھا۔ وہ اس آزمائش میں بھی کامیاب رہی۔ اس نے اسیری کے دوران رحم کی اپیل تو کیا، رعایت کی درخواست تک نہیں دی۔ اس کو معلوم تھا کہ اسے وہ سب کچھ برداشت کرنا ہے، جو ایک لیڈر کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
جب کوئی چھوٹی بچی بغیر سہارے چلنے کی کوشش کرتے ہوئے گر جاتی ہے اور چوٹ لگنے کی وجہ سے رونے لگتی ہے، تب باپ اس کو جھولی میں بٹھا کر اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے اسے محبت کے ساتھ بتاتا ہے کہ ’’اس طرح ہی بڑے ہوتے ہیں بیٹا!‘‘ سیاسی لیڈر بننے کے لیے بدتر حالات کے پہاڑی راستے پر اوپر کی طرف سفر کرنا ہوتا ہے۔ اس میں انسان گرتا ہے اور زخمی بھی ہو جاتا ہے۔ اس سفر میں وہ یہ بات سمجھتا ہے کہ ’’درد سب سے اچھا استاد ہوتا ہے۔‘‘
مریم اب سیاسی مسافر ہے۔ وہ سیاست کی ویڈیو گیم کا ایسا کردار ہے، جو کامیابی سے رکاوٹیں عبور کرتا ہوئے اور انعام کے پوائنٹس سمیٹتے ہوئے مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ اس کی کامیابی کے بارے میں پیش گوئی کرنا بہت آسان ہے۔ جب ایک لیڈر تیاری کے مراحل تیزی سے عبور کر رہا ہو اور اس کی عمر بھی مناسب ہو۔ اس کی صحت بھی اچھی ہو اور اس کے سامنے حاصل کرنے کے لیے بہت کچھ ہو تو پھر کمی کس بات کی ہے؟
پنجابی زبان کی ایک مشہور کہاوت ہے: ’’پھل موسم دا گل ویلے دی‘‘
یعنی: پھل موسم کا اچھا ہوتا ہے اور بات وہ بھلی ہوتی ہے، جو موقعے کے حوالے سے مناسب ہو۔
فطرت کی طرح سیاست میں بھی موسم کی بہت بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ بھلے بیج اچھا ہو۔ زمین بھی زرخیز ہو۔ پانی کی بھی کوئی کمی نہ ہو۔ لیکن اگر موسم مناسب نہیں تو پھر وہ بیج فصل نہیں بن پائے گا۔ فطرت کی طرح سیاست میں حالات کے موسم کی بہت بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ اگر مناسب حالات نہ ہوں تو سیاسی تحریک سارے لوازمات مکمل ہونے کے باوجود بھی منزل حاصل نہیں کر سکتی۔ ایک لیڈر کے پھلنے پھولنے کے لیے بھی مخصوص ماحول کا موسم درکار ہوتا ہے۔ مریم نواز کے لیے ملک کا موجودہ موسم بہت سازگار ہے۔ مریم سیاسی موسم کے تازہ پھل کی صورت اگر پاکستان نہیں تو کم از کم پنجاب کے پیڑ پر جھول رہی ہے۔ اس کی بات اس وقت کی بات ہے۔ وہ کل کا قصہ نہیں۔ وہ آج اور ابھی ہے۔
مریم جس طرح سیاسی طور پر تیار ہو رہی ہے، اس میں مصنوعیت کا عنصر نہیں ہے اور اگر ہے تو بہت کم ہے۔ وہ اپنے والد کی پارٹی کی قیادت سنبھالنے کے لیے بہت جلد اس پوزیشن میں آجائے گی، جس پوزیشن کے لیے اکثر سیاسی رہنماؤں کو زیادہ وقت اور بہت محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ مریم کا مقابلہ بلاول سے نہیں، بلکہ عمران سے ہوگا۔ بلاول کے لیے تو پنجاب میں داخل ہوکر سیاسی کامیابیاں حاصل کرنا آنے والے پانچ برس تک ممکن نظر نہیں آ رہا، مگر عمران خان کے وعدے جب پورے نہیں ہوں گے، عوام میں بے چینی بڑھے گی اور اس کے ساتھ ساتھ ملک میں پیدا ہونے والا معاشی بحران جن سیاسی حالات کو جنم دے گا، اس میں عمران خان کے لیے ممکن نہیں ہوگا کہ وہ میاں نواز شریف کی بیٹی کا مقابلہ کر پائے۔ پنجاب کی مڈل کلاس کی ایک پرت عمران خان کے ساتھ چلی ہے، مگر اس وقت اپنے فیصلے پر نادم نہیں تو کم ازکم پریشان ضرور ہے۔ مریم نواز پنجاب کی اس سیاسی قوت کو ازالے کا موڑ دینے کے سلسلے میں مناسب شخصیت کی مالک ہے۔ جب ہم مریم کی بات کر رہے ہیں تب ہم میاں نواز شریف کی بات کر رہے ہیں۔ جب ہم میاں نواز شریف کی بات کرتے ہیں تب ہم اس مسلم لیگ (ن) کی بات کرتے ہیں، جس کی جڑیں پنجاب کے برادری سسٹم سے لے کر اس مخصوص پنجابی قوم پرستی میں پیوست ہیں، جو پاکستان مخالف نہیں۔
مریم نواز اپنے والد اور میاں کے ساتھ رہا ہو چکی ہے۔ اس کی زندگی میں دو ماہ کی قید کا عرصہ اس کے حق میں ایک مثال بن کر رہے گا۔ اس کے پاس اپنی مظلومیت بیان کرنے کے سلسلے میں بہت کچھ ہے۔ وہ اس اسیری کی بات بار بار کرے گی، جس کی مدت بھلے کم تھی، مگر اس دوران اس کی ماں کا فوت ہو جانا اور پیرول پر رہا ہوکر ماں کے جنازے پر آنسو بہانے سے لے کر بچوں سے دور رہنا اور وہ بہت کچھ جو پاکستان کی سیاست میں ایک لیڈر کے تیار ہونے کی ترکیب کے لیے ضروری ہوتا ہے، وہ سب مریم کے پاس ہے۔ مریم کے پاس وقت بھی ہے۔ مریم کے پاس پارٹی بھی ہے۔ مریم کے پاس وسائل بھی ہیں۔ مریم کے پاس تجربہ کار بزرگوں کی رہنمائی اور وفادار کارکنوں کی توانائی بھی ہے۔ سب سے زیادہ وہ پنجاب کی دھرتی پر آسان اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے ایسا راستہ بنانے کی پوزیشن میں ہے، جو راستہ صرف ان سیاسی مسافروں کو ملتا ہے، جو موسم کو دیکھ کر سفر کا آغاز کرتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
Next Post