چکوال سے جانوروں کی ایک کروڑ برس پرانی باقیات برآمد

0

راولپنڈی (رپورٹ :مرزا عبدالقدوس ) پنجاب کے ضلع چکوال سے جانوروں کی ایک کروڑ برس پرانی باقیات ملی ہیں، جن میں ہاتھی، خنزیر ، گینڈا، مگرمچھ، زرافہ اور کچھوا شامل ہیں۔تفصیلات کے مطابق گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد، منہاج یونیورسٹی لاہور اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے شعبہ زوآلوجی کے اساتذہ اورپی ایچ ڈی کے طلبا نے 14،15،16 ستمبر کو چکوال کے دو مختلف مقامات ’’بن امیر خاتون‘‘ اور تلہ گنگ کے گاؤں ’’نگری‘‘ کا دورہ کیا جہاں سے انہیں گینڈے اور زرافے کی ہڈیاں ملیں۔ منہاج یونیورسٹی کے پروفیسر محمد اختر، جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے پروفیسر خضر سمیع اللہ اور جی سی یونیورسٹی لاہور کے پروفیسر ظہیر احمد، طلبہ کے تین مختلف گروپوں کے سربراہ تھے۔ خضر سمیع اللہ کی ٹیم کو بن امیر خاتون سے ہاتھی کا جو دانت ملا، اس کےبارے میں ان ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نسل اب ناپید ہوچکی ہے اس نسل کو ڈاکٹر خضر نے گومقوم تھیرم کا نام دیا ہے یہ ہاتھی دانت جی سی یونیورسٹی لاہور میں موجود ہے۔ اس نسل کے ہاتھی افریقہ ،ایشیا اور یورپ میں پائے جاتے تھے جن کا قد سات فٹ اور وزن چھ ٹن سے زائد ہوتا تھا۔ اسی طرح ان ٹیموں کو گینڈے، زرافے، کچھوے، خنزیر اور مگر مچھ کی باقیات بھی ملی ہیں۔منہاج یونیورسٹی کے پروفیسر محمد اختر پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ زوآلوجی میں 37سال خدمات سر انجام دے چکے ہیں ۔ ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئےانہوں نے کہا کہ ہمارا بنیادی مقصد ہاتھیوں اور بعض دیگر جانوروں کی باقیات تلاش کرکے ان کی معدوم نسلوں کا کھوج لگانا ہے۔ ان جانوروں کی نسلیں معدوم ہوچکی ہیں پاک و ہند کے چار مقامات سے کروڑوں برس پرانے جانوروں کی باقیات ملی ہیں اور ان میں سے تین مقامات پاکستان کے اضلاع جہلم اور چکوال جبکہ چوتھا مقام بھارتی شہر امرتسر میں ہے۔ ڈاکٹر محمد اختر کے مطابق ان پرانے دانتوں سے نکلنے والے فوسلز اور ان کے اندر موجود یورینیم کی تبدیلی کے عمل سے ہمارے طلبہ مختلف لیبارٹری ٹیسٹ کے ذریعے طے کرتے ہیں کہ یہ دانت اور ہڈیاں کتنی قدیم ہیں انہوں نے بتایا کہ دنیا میں ہاتھی کے سب سے پہلے آثار مصر کی جھیل ’’مودی‘‘ سے ملے تھے اس نسل کے ہاتھی قدو قامت میں بہت چھوٹے اور آج کے سور کے برابر تھے اور اس کے دانت نیچےسے اوپر جاتے تھے اور اب اوپر سے نیچے آتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد اختر نے کہا کہ چکوال کی تحصیل تلہ گنگ کے گاؤں ’’نگری‘‘ سے میری ٹیم کو کچھوے، گینڈےاور زرافے کی باقیات ملی ہیں جن میں دانت بھی شامل ہیں۔ دانت جسم کا ایسا حصہ ہے کہ اس سے ماہرین فوراً معلوم کرلیتے ہیں کہ یہ دانت کسی جانور کے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے طلبہ کے تھیسس کیلئے یہ ریسرچ بہت اہمیت کی حامل ہے اور پوٹھوہار کا علاقہ اس کیلئے بہت مددگار ثابت ہوتا ہے۔ بن امیر خاتون اور نگری کے علاقے اب پہاڑی علاقے ہیں لیکن یہاں سے ہاتھی، زرافے کے ساتھ ساتھ کچھوے اور مگرمچھ کی باقیات بھی مل رہی ہیں جو آبی جانور ہیں، اس میں عام آدمی کے لئے حیرت ہوسکتی ہے لیکن ماہرین جانتے ہیں کہ گردش زمانہ کے ساتھ کروڑوں سال پرانی باقیات سینکڑوں میل کا سفر کرتی ہیں۔ ممکن ہے یہ جانور یہیں پر کسی آبی ذخیرے میں مرے ہوں یا مرنے کے بعد سینکڑوں کلو میٹر دور سے ان کی کچھ باقیات یہاں پہنچی ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ ان باقیات کی تلاش کے لئے ہم کھدائی نہیں کرتے چونکہ مخصوص مقامات اور جگہوں کا ہمیں علم ہے اس لئے شعبے سے وابستہ اساتذہ وطلبہ بارشوں کے بعد ان مقامات کا رخ کرتے ہیں۔ بارش کے پانی کے بہاؤ سے کچھ ہڈیوں، دانتوں وغیرہ کے آثار نمایاں ہوجاتے ہیں جس کے بعد انہیں نکال لیا جاتا ہے ان پر تحقیق کے بعد انہیں محفوظ کرلیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر محمد اختر نے بتایا کہ پنجاب یونیورسٹی کی 37سالہ سروس کے دوران تقریباً ہر طرح کے جانوروں کی باقیات تلاش کیں جو اب پنجاب یونیورسٹی کے ذخیرے میں موجود اور محفوظ ہیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More