کراچی پولیس چیف کے مطابق پولیس کے اندر احتساب کا عمل جاری ہے۔ جرائم پیشہ افراد کے ساتھ مل کر مجرمانہ سرگرمیوں میں مصروف ایک سو پچھتر افسروں اور اہلکاروں کی فہرست تیار کرلی گئی ہے۔ ان کا تعلق شہر کے مختلف تھانوں سے ہے۔ مذکورہ فہرست میں دو ڈی ایس پی اور گیارہ انسپکٹروں کے نام شامل ہیں۔ محکمہ پولیس سے تعلق رکھنے والے یہ لوگ مجرموں اور سماج دشمن عناصر کے ساتھ مل کر منشیات فروشی اور زمینوں پر قبضے سمیت کئی بھیانک او سنگین جرائم میں ملوث ہیں۔ ان میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جو اعلیٰ پولیس افسروں کے لئے ماہانہ بھتے جمع کرتے ہیں۔ ایڈیشنل آئی جی کراچی ڈاکٹر امیر شیخ کا دعویٰ ہے کہ یہ افسران اور اہلکار جن جرائم پیشہ افراد کے ساتھ مل کر کارروائیاں کرتے تھے، ان کو گرفتار کرنے کے لئے فہرست میں شامل پولیس افسروں اور اہلکاروں سے مدد لی جائے گی۔ ڈاکٹر امیر شیخ کہتے ہیں کہ کوئی بھی پولیس افسر یا اہلکار جرائم میں ملوث پایا گیا تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ پولیس افسروں کی جانب سے ایسے دعوے کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ فوج، رینجرز اور پولیس نے مشترکہ کارروائیاں کرکے ملک کے دوسرے حصوں کی طرح کراچی سے بھی دہشت گردی کا تقریباً خاتمہ کردیا ہے۔ جس کی وجہ سے ایم کیو ایم کا زور ٹوٹ چکا ہے۔ یاد رہے کہ دو سال پہلے تک شہر میں قتل و غارت کا بازار گرم رہتا تھا اور کراچی میں دہشت گردوں کے ہاتھوں ہزاروں جوانوں کی جانیں ضائع ہو چکی تھیں، اب شہر میں چھوٹے موٹے جرائم کرنے والے سرگرم ہوگئے ہیں۔ اسٹریٹ کرائمز میں ملوث یہ افراد کاریں، موٹر سائیکلیں، موبائل فون اور خواتین کے پرس چھیننے کی وارداتیں کررہے ہیں۔ یہ کہنا اگرچہ کچھ اچھا نہیں، لیکن بہت بڑی حقیقت ہے کہ پولیس کی پشت پناہی کے بغیر جرائم پیشہ افراد اس قدر جری نہیں ہوسکتے، بلکہ بعض مبصرین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر محکمہ پولیس کو بالکل ختم کردیا جائے تو جرائم کی تعداد نصف سے بھی کم رہ جائے گی۔ بلاشبہ اس محکمے میں بھی دیانتدار اور فرض شناس پولیس افسروں اور اہلکاروں کی تعداد کچھ کم نہ ہوگی، لیکن اول تو وہ شاید آٹے میں نمک کے برابر ہوں۔ دوسرے یہ کہ کثیر تعداد کے مقابلے میں وہ یقیناً بے اثر ہیں۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ پولیس کا محکمہ انگریزوں کے دور سے کانِ نمک کی مانند ہے، جہاں آنے والی ہر شے جلد یا بدیر نمک بن جاتی ہے۔ یہ بات زبان زد عام ہے کہ کوئی بے گناہ یا چھوٹا مجرم پولیس کے چنگل میں ایک بار پھنس جائے تو بالعموم بڑا مجرم بننے تک اس کی جان بخشی نہیں ہوتی۔ یہی حال ہماری جیلوں کا ہے۔ رشوت خوری کے لئے پولیس کا محکمہ سب سے زیادہ اس لئے بدنام ہے کہ عام شہریوں کا اس کے ساتھ آئے دن سابقہ پڑتا ہے۔ پاکستان میں پولیس کے عقوبت خانے مشہور ہیں، جہاں حراست میں لئے جانے مشکوک افراد پر تفتیش کے نام پر اس قدر ظلم و تشدد کیا جاتا ہے کہ وہ ناکردہ گناہوں اور جرائم کا بھی اقبال کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ تھانوں اور جیلوں میں تشدد کے ذریعے ہلاکتوں کی خبریں اکثر ذرائع ابلاغ کی زینت بنتی ہیں۔ اس لئے ہر دور میں بڑے بوڑھے یہ دعا مانگتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اللہ سب کو تھانے کچہری سے بچائے۔ پولیس کی دراز دستی کا اندازہ ملیر کے راؤ انوار کی ایک مثال سے کیا جاسکتا ہے جو رشوت نہ ملنے پر مشکوک افراد کو جعلی پولیس مقابلوں میں ہلاک کرنے کے لئے مشہور تھا۔ شومئی قسمت سے وہ نقیب اللہ قتل کیس میں گرفتار ہوا تو اس کے پیٹی بھائیوں نے اسے زبردست وی آئی پی پروٹوکول دیا۔ اس کے خلاف مقدمے کو کمزور کرکے پیش کیا گیا تو اسے ضمانت پر رہائی مل گئی، جبکہ اکثر رپورٹوں کے مطابق راؤ انوار ساڑھے چار سو کے قریب افراد کو قتل کرنے اور برسر اقتدار طبقوں کے لئے زمینوں پر قبضے میں ملوث رہا ہے۔ اس کے سر پر سندھ سے تعلق رکھنے والی ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ کا دست شفقت ہے، جس کی نظروں میں راؤ انوار ایک معصوم بچہ ہے۔ پولیس کی اصلاح کیلئے یکے بعد دیگرے کئی کمیشن قائم ہوئے، جنہوں نے اپنی رپورٹوں میں دیگر تجاویز کے علاوہ پولیس اہلکاروں اور افسروں کی تنخواہیں بڑھانے کی بھی سفارش کی۔ امر واقعہ یہ ہے کہ آج ان کی تنخواہیں اور مراعات ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ اور پرکشش ہیں، لیکن پولیس گردی کم ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے، کیونکہ حکمراں طبقوں نے پولیس کو اپنے ذاتی اور سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرکے پہلے سے بھی زیادہ بے لگام کردیا ہے۔ پولیس کے بارے میں یہ جو کہا گیا ہے کہ ’’رشوت لے کر پکڑا گیا ہے، رشوت دے کر چھوٹ جا‘‘ تو یہ گویا پورے محکمے کا نقشہ پیش کرنے کے لئے کافی ہے۔ چند افراد کو برطرف یا معطل کرکے یا دیگر سزائیں دے کر محکمہ پولیس کی اصلاح کا خیال ظاہر کیا جائے تو یہ حسب سابق نقش برآب سے زیادہ کچھ نہ ہو گا۔
بھارت کی ایک بار پھر آبی دہشت گردی
بھارت نے ایک بار پھر حسب عادت پاکستان کے خلاف آبی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ستلج، جہلم اور راوی میں پانی چھوڑ دیا ہے تاکہ یہاں زرعی زمینوں، کھیتوں اور مویشیوں کو شدید نقصان سے دوچار کیا جائے۔ سرحدوں پر بھارتی فوج کی دہشت گردی آئے دن کا معمول ہے۔ اس کے ساتھ ہی بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کی جانب بہہ کر آنے والے دریاؤں پر غیر قانونی ڈیم بنا کر پانی پر اس طرح قابو پالیا ہے کہ خشک سالی کے زمانے میں پاکستان کے حصے کا پانی روک کر یہاں کی زمینوں کو بنجر بنادیا جاتا ہے۔ جبکہ سیلاب اور بارشوں کے زمانے میں ڈیموں میں ذخیرہ کیا ہوا تمام پانی چھوڑ کر پاکستان کے دریاؤں میں طغیانی پیدا کردی جاتی ہے۔ اس طرح بھی وہ پاکستان کی زراعت، مویشیوں، انسانوں اور مکانوں کی تباہی سے خوش ہوتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر اگرچہ عالمی طور پر ایک متنازع علاقہ ہے، لیکن وہاں بھی بھارت نے کئی ڈیم بنا کر ایک جانب پانی سے اپنے استفادے کے پورے انتظامات کئے ہیں تو دوسری طرف حسب موقع اس پانی کو روک کر یا چھوڑ کر پاکستان کو نقصان پہنچانے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ ڈیموں کے ذریعے بھارت نے بجلی کے کئی منصوبے شروع کرکے اپنی توانائی کی ضروریات بھی پوری کرلی ہیں، جبکہ پاکستان بجلی و پانی، دونوں کے شدید بحران سے اب تک دوچار ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭