سرفروش

0

عباس ثاقب
سچن بھنڈاری کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں۔ تھوک نگل کر حلق تر کرتے ہوئے اس نے کہا۔ ’’میں نے بتایا تو تھا…‘‘۔
میں نے اچانک الٹے ہاتھ سے اس کے منہ پر ضرب لگائی، جو غیرارادی طور پر اتنی زوردار ثابت ہوئی کہ اس کی بات ہی ادھوری رہ گئی۔ ہونٹوں کے کنارے سے خون کی چھوٹی سی ندیا بھی بہہ نکلی۔ اس وقت اس کی حالت مجھے ویسے ہی لگی جو گلے پر چھری چلنے کے منتظر بکرے کی ہوتی ہوگی۔ میں نے دہشت کی فضا مزید سنگین بنانے کے لئے بائیں ہاتھ سے اس کا گریبان پکڑ کر جھٹکا دیا۔ ’’ تم نے امریکی شراب کے نشے میں سچ اگل دیا ورنہ تم تو مجھے دھوکا دینے میں سپھل ہو ہی گئے تھے۔ میں انتظار کرتا رہ جاتا کہ کب نیل کنٹھ راج دھانی جائے گا اور تم اس کے کاریالے جاکر فوٹوگرافی کرکے لاؤ گے… اور وہ منگل وار کو دلّی کا چکر لگاکر واپس بھی آجاتا!‘‘۔
مجھے لگا کہ یہ الفاظ سنتے ہی اس کی رگوں سے خون غائب ہوگیا ہے۔ میں نے گریبان کی گرفت مزید سخت کی لیکن شاید اس کی ضرورت نہیں تھی۔ یک لخت وہ بلبلا اٹھا۔ ’’بھگوان کے لئے مجھے شمادے دو… وہاں ایسا کاریے (کام) کرنا… نشچنت روپ سے بہت بھاری جوکھم بھرا ہے… پھنس جاؤں گا… میں ڈر گیا تھا!‘‘۔
میں نے یخ بستہ لہجے میں کہا۔ ’’تم تو پہلے ہی گلے تک پھنس چکے ہو سچن بھنڈاری…۔ اب تو تم پر بندوق اٹھانے کی بھی ضرورت نہیں ہے…‘‘۔
میں نے اس کی دہشت اور حیرت بھری نظروں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ریوالور کی نال اس کی پیشانی سے ہٹانے کے ساتھ اس کا گریبان بھی چھوڑدیا اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا۔ ’’تمہیں ناؤ سینا میں بہت سال ہوگئے ہیں، انڈین نیول ایکٹ 1957 تو پڑھا ہوگا؟‘‘۔
اس کی نظروں میں بدستور سوال منڈلاتا دیکھ کر میں نے کہا۔ ’’چلو میں یاد دلادیتا ہوں۔ تم اس کے سیکشن 38 یعنی اپنے محکمے کے خلاف جاسوسی پر سزائے موت اور سیکشن 39 یعنی کوئی راز دشمن کو پہنچانے، سیکشن 40، دشمن سے کوئی مواصلاتی رابطہ رکھنے، دونوں پر عمر قید کے حق دار بن چکے ہو۔ جبکہ محکمے کی سمپتھی (اثاثے) کے بے جا استعمال وغیرہ پر سزائیں علیحدہ تمہارے بھاگ میں لکھی جا چکی ہیں‘‘۔
مجھے لگا کہ سانس اس کے سینے میں رک چکی ہے اور وہ ابھی ڈھیر ہوجائے گا۔ میں نے اسے بالکل چت کرنے کے لئے بات جاری رکھی۔ ’’تمہیں موت کے منہ میں بھیجنے کے لئے تو مجھے گولی چلانے کی ضرورت بھی نہیں۔ بس تمہارے باس نیل کنٹھ کو ایک فون کرنے سے کام ہوجائے گا۔ مجھے پتا ہے وہ تمھارے خون کا پیاسا ہے اور تمھیںدھتکارنے اور اپمان کرنے کا کوئی اوسر (موقع) ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ وہ تمہیں پھانسی کے پھندے تک پہنچانے کے لئے جان لڑا دے گا‘‘۔
وہ کئی لمحوں تک بت بنا بیٹھا رہا۔ بالآخر مردہ لہجے میں بولا۔ ’’ تم… تم کیا چاہتے ہو؟‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’پہلی بات یہ کہ تم کموڈور نیل کنٹھ کے دلّی روانہ ہوتے ہی اس کے دفتر میں جاؤ۔ وہاں کسی خطرے کی پروا کیے بغیر، لیکن پوری احتیاط سے تمام ڈاکومنٹس کی فوٹو گرافی کرو۔ دوسرے یہ کہ آئندہ ایسی کسی بھی چال بازی سے باز رہنے کا اٹوٹ وچن دو‘‘۔
اس نے بلا چوں چرا میری ہدایات پر حرف بہ حرف عمل کرنے کا وعدہ کرلیا۔ میں اس سے کیمرا لے کر غسل خانے میں گیا۔ استعمال شدہ رول نکالا اور دوسرا رول ڈال کر کیمرا ایک بار پھر اس کے حوالے کر دیا۔ وہ سستے میں جان چھوٹنے پر کچھ مطمئن نظر آرہا تھا۔ چنانچہ میں نے اسے ایک اور جھٹکا دینا مناسب سمجھا۔
میں نے گھر کے دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔ ’’اچھا ایک بات بتاؤ سچن جی!‘‘۔
اس نے چونک کر مجھے دیکھا۔ میں نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ ’’سنا ہے ایلفنسٹون ہوٹل والی شریمتی کامنی کی طرح آرتی دیوی کی چچا زاد بہن سپنا سے بھی تمہارا بہت ہی پوتر رشتہ ہے؟‘‘۔
اس کے ساتھ ہی اس پر ایک بار پھرگویا منوں برف گرگئی۔ مجھے لگا کہ وہ لرز رہا ہے۔ اس نے کچھ کہنا چاہا، لیکن آواز حلق میں پھنس گئی۔ میں نے بات جاری رکھی۔ ’’مجھے وشواش ہے آرتی دیوی اپنے جیجا جی سے سپنا کے سپنوں جیسے سمبندھ کا سن کر بہت خوش ہوگی‘‘۔
اس کی حالت ایسی نہیں تھی کہ میں اس پر مزید تیر چلاتا، لہٰذا اسے اس کے حال پر چھوڑ کر میں اس کے گھر سے نکل آیا اور کسی قابلِ ذکر واقعے سے دو چار ہوئے بغیر اپنے ٹھکانے پر پہنچ گیا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More