عبدالمالک مجاہد
سیدنا حسن بن علیؓ اور سیدنا حسین بن علیؓ دونوں سید زادے دنیا میں ریحانۃ الرسولؐ (حضورؐ کے پھول) تھے۔ مدینہ طیبہ میں ان کے نانا محترمؐ کے علاوہ بے شمار لوگ تھے جو ان سے شدید محبت کرتے تھے۔ مدینۃ الرسول میں آپؐ کی ازواج مطہرات تھیں، جو ان سے محبت کرتیں۔ ان کی خالائیں بھی تھیں۔ دیگر رشتے داروں کے علاوہ مدینہ طیبہ میں مہاجرین اور انصار تھے، جو ان کی ایک ایک ادا پر دل وجان سے فدا تھے۔ سیدنا حسنؓ و حسینؓ ان خوش قسمت نفوس میں سے تھے، جن کی تربیت خود رسول اقدسؐ نے فرمائی۔ ان کو ہمیشہ لقمۂ حلال ہی کھانے کو ملا۔
ذرا اس حدیث نبوی پر غور فرمائیے کہ مسجد نبوی میں صدقے کی کھجوروں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ سیدنا حسنؓ اور حسینؓ ابھی چھوٹے تھے، وہ کھجوروں کے ڈھیر سے کھیلنے لگ گئے، ان میں سے ایک نے کھجور لی اور اپنے منہ میں ڈال لی۔ رسول اقدسؐ اپنے ننھے نواسے کو دیکھ رہے تھے، آپؐ نے ان کے منہ میں انگلی ڈال کر اسے باہر پھینک دیا اور فرمایا: کِخْ کِخْ بیٹا! اس کو نکال دو، تھوک دو، ہم بنو ہاشم ہیں، ہمارے لیے صدقہ حلال نہیں ہے۔
نبی کریمؐ کی حیات طیبہ کو اگر غور سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ آپ بحیثیت باپ، خاوند، نانا، سسر، دوست، سب لوگوں سے زیادہ افضل تھے۔ امت کی خیر خواہی
میں ہر وقت مصروف رہنے والے رسولؐ کی زندگی کے شب وروز کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کبھی کبھار اپنی بیٹی سیدہ فاطمہؓ کے گھر میں تشریف لے جاتے، ان کے احوال دریافت کرتے اور ان کے بچوں کے ساتھ کھیلتے۔ سیدنا حسن بن علیؓ آپؐ کے سب سے بڑے نواسے تھے، آپؐ کو ان سے بے حد محبت تھی۔
جب سیدہ فاطمہؓ کی شادی ہوئی تو ایک عرصہ تک سیدہ کا گھر بنو قینقاع کے بازار کے اطراف میں واقع تھا۔ یہ گھر انہوںنے غالباً حارثہ بن نعمانؓ سے کرایہ پر لے رکھا تھا۔رسول اقدسؐ نے ایک دن اپنے شاگرد ابوہریرہؓ سے ارشاد فرمایا: ابوہریرہ! میرے ساتھ چلو۔ یہ نماز ظہر سے پہلے کا وقت تھا۔ مدینہ میں اس روز قدرے زیادہ گرمی تھی۔ مدینہ کا موسم گرمیوں میں گرم اور سردی کے موسم میں خاصا ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔
سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: میں ایک دن مسجد نبوی میں بیٹھا تھا۔ دن روشن ہو چکا تھا، آپؐ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور اس پر قدرے دباؤ ڈال کر مجھے ایک طرف چلنے کا اشارہ کیا۔ میں آپؐ کے ہمراہ چل پڑا۔ رسول اکرمؐ کا رخ اپنی بیٹی سیدہ فاطمۃ الزہراؓ کے گھر کی طرف تھا۔ ان دنوں سیدہ فاطمہؓ مسجد نبوی کے مشرق میں واقع بنو قینقاع کے بازار کے گرد و نواح میں رہائش پذیر تھیں۔ بنو قینقاع کا یہ بازار بقیع الغرقد کی طرف تھا۔ ابوہریرہؓ کہتے ہیں: ہم دونوں خاموشی سے کوئی گفتگو کیے بغیر بازار کے قریب سے گزرے۔ آپؐ بازار میں داخل ہوئے، اسے ایک نظر دیکھا، پھر وہاں سے چل دیئے۔ میں بھی آپؐ کے ساتھ ساتھ تھا۔ آپؐ سیدہ فاطمہؓ کے گھر تشریف لائے۔ صحن میں تشریف فرما ہوئے اور ارشاد فرمایا: ’’اَیْنَ لُکَعُ؟ چھوٹو کدھر ہے؟‘‘ پھر فرمایا: ’’اَیْنَ لُکَعُ؟ چھوٹو کدھر ہے؟‘‘ پھر تیسری مرتبہ ارشاد ہوا: ’’چھوٹو کدھر ہے؟‘‘ یہ الفاظ آپؐ اپنے نواسے سیدنا حسن بن علیؓ کے بارے میں فرما رہے تھے۔
ابوہریرہؓ کا بیان ہے: ادھر سیدہ فاطمہؓ اپنے صاحبزادے کو تیار کر رہی تھیں، اس لیے کوئی جواب نہ آیا۔ ہمیں اندازہ ہوگیا کہ وہ سیدنا حسنؓ کو نہلا کر اچھا لباس پہنا رہی ہیں۔ آپؐ اور میں تھوڑی دیر کے بعد واپس مسجد نبوی میں آگئے۔
جب ہم مسجد میں آئے تو آپؐ تشریف فرما ہونے کے بعد پھر فرمانے لگے: ’’اَیْنَ لُکَعُ؟ چھوٹو کدھرہے؟‘‘ تھوڑی دیر گزری تھی کہ سیدنا حسنؓ اپنے گلے میں ہار پہنے دوڑتے ہوئے آئے۔ رسول اکرمؐ نے پیارے نواسے کو دیکھا تو اپنے بازؤوں کو کھولتے ہوئے ان کا استقبال فرمایا۔ ادھر سیدنا حسنؓ نے بھی اپنے بازو پھیلا دیئے اور کہا: ایسے، پھر وہ آپؐ کی گود میں کود گئے۔ آپؐ نے حسنؓ کو چوما، اسے اپنے سینے سے لگایا۔ ادھر حسنؓ اپنے ننھے منے ہاتھوں سے داڑھی مبارک سے کھیلنے لگے۔ آپؐ نے حسنؓ کو چومنا شروع کردیا۔ پھر سیدنا حسنؓ کے لیے دعا فرمائی: ’’خدایا! میں بے شک اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما اور جو اس سے محبت کرے اس سے بھی محبت فرما۔‘‘ سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں: آپؐ نے یہ دعا تین مرتبہ فرمائی۔
آپ نے دیکھا کہ حضور اکرمؐ اپنے اس نواسے سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ آپؐ سیدنا حسنؓ سے پیار کر رہے تھے، انہیں چوم رہے تھے کہ بنو تمیم کا سردار اقرع بن حابسؓ اس منظر کو دیکھ کر کہنے لگے: حضور! میرے دس بیٹے ہیں، مگر میں نے تو اپنے کسی بیٹے کوکبھی نہیں چوما۔ ارشاد ہوا: ’’جو رحم نہیں کرتا، اس پر رحم نہیں کیا جائے گا۔‘‘
سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ جب سے میں نے رسول اکرمؐ کو سیدنا حسنؓ سے اس درجہ محبت کرتے دیکھا اور آپؐ کی یہ دعا بھی سنی ’’الٰہی! تو اس سے محبت کر جو حسن سے محبت کرتا ہے‘‘ تو میں سیدنا حسنؓ سے بے پناہ محبت کرنے لگا۔ پھر ان کی محبت کی کیفیت یہ ہو گئی کہ فرماتے ہیں: ’’میں نے جب کبھی حسنؓ کو دیکھا فرط محبت سے میری آنکھوں میں آنسو جاتے۔‘‘ ایک اور روایت کے مطابق سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ حضورؐ کی یہ محبت دیکھنے کے بعد میری نگاہ میں سیدنا حسنؓ سے زیادہ محبوب کوئی نہ تھا۔
سعید بن ابی سعید المقبریؒ کہتے ہیں: ایک مرتبہ ہم سیدنا ابو ہریرہؓکے ساتھ تھے۔اسی دوران سیدنا حسن بن علیؓ آئے ہمیں سلام کیا۔ ہم نے انہیں سلام کا جواب دیا۔سیدنا حسنؓ وہاں سے چل دیے، مگر ان کی تشریف آوری کا سیدنا ابو ہریرہؓ کو پتہ نہ چل سکا۔ہم نے انہیں بتایا کہ یہ سیدنا حسن بن علیؓ ہیں، جو یہاں تشریف لائے تھے اورہمیں سلام کہنے کے بعد اب واپس جا رہے ہیں ۔ابو ہریرہؓ فورا اٹھے، ان کے پیچھے گئے اور عرض کی: ’’میرے آقا!میرے سردار! آپ پر بھی سلامتی ہو۔‘‘پھر سیدنا ابو ہریرہؓtنے کہا: میں نے رسول اقدسؐکی زبان مبارک سے سنا ہے ، آپؐ فرما رہے تھے: ’’ میرا یہ بیٹا سردار ہے۔‘‘
قارئین کرام! اگر رسول اکرمؐ سیدنا حسنؓسے محبت کرتے ہیں تو وہ بھی اپنے نانا جان سے از حد محبت کرتے ہیں۔ وہ اپنے بازو پھیلا دیتے ہیں۔ آپؐ کی گود میں بیٹھتے ہیں۔ آپؐ کی داڑھی سے کھیل رہے ہیں۔ نانا جانؐ اور نواسے کی یہ محبت صرف ایک مرتبہ کی بات نہیں ، نہ ہی یہ کوئی پہلا موقع ہے بلکہ یہ محبت اور پیار شروع د ن سے چلا آرہا ہے۔ آپؐ نے اپنے اس نواسے کو گھٹی دی تھی۔ ان کا نام رکھا تھا۔ ان کے لیے دعائیںکی تھیں۔ انہیں سید شباب اہل الجنۃ(جتنی جوانوں کا سردار) کے لقب سے نوازا تھا اور ان کے لیے پیش گوئی فرمائی تھی کہ وہ مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں کے درمیان صلح کروائیں گے۔آپؐ نہ صرف اس نواسے سیدنا حسنؓ سے محبت کرتے تھے، بلکہ دوسرے نواسے سیدنا حسینؓ سے بھی بہت محبت کرتے تھے۔ آپؐ ان کے ہونٹوں کو بھی چومتے تھے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post