روزنامہ امت میں مورخہ 19-09-18 میرا کالم بعنوان ’’گڈاپ تھانے کا احوال جانئے‘‘ شائع ہوا تو ایک واقف حال نے تبصرہ کیا کہ ’’پروفیسر صاحب کو کسی کل چین نہیں ہے، پہلے ابراہیم حیدری اور پی اے ایف بیس کورنگی کریک سے شارع فیصل تک قلم کے گھوڑے دوڑاتے رہے اور ضلع کورنگی اور ضلع ملیر کے ایک کنارے پر پھیلے ہوئے مسائل سمیٹتے رہے، اب قدرت کے حکم پر ڈسٹرکٹ ملیر کے دوسرے سرے پر قائم علاقوں میں رہنے بسنے والوں کی تکالیف اور پریشانیاں پاکستان کے دوسرے بڑے روزنامے کے ذریعے سرکاری اور نجی متعلقہ اداروں تک پہنچانے کے لیے گڈاپ ٹائون میں جا بسے ہیں۔ کسی نے درست کہا ہے کہ حرکت میں برکت ہے، لگے رہئے۔ پروفیسر صاحب آج نہیں تو کل آپ کے قلم سے گڈاپ ٹائون اور سپر ہائی وے (موٹر وے) کے اطراف پھیلے ہوئے محنت کشوں کے مسائل ضرور حل ہوں گے۔‘‘ میں اس تبصرے سے نہ صرف متفق ہوں، بلکہ اس سے میرا حوصلہ بھی بڑھا ہے اور جذبہ جوان ہوا ہے، مجھے اطمینان اور تسلی حاصل ہوئی ہے کہ ’’امت‘‘ کے قارئین اس میں شائع ہونے والی خبریں، کالم، رپورٹیں، تبصرے، شذرات، اداریئے اور انٹرویوز سب کچھ فالو کرتے ہیں۔ میں مسائل کی تحریری نشاندہی کے بعد انہیں اعلیٰ ترین حکام کو بذریعہ ای میل یا پھر فیکس کے ذریعے ارسال کرتا ہوں، میں یہ کام گزشتہ چالیس برسوں سے کررہا ہوں اور جس طرح مالی کا کام پانی دینا ہے اور پھل پھول لگانا مالک کائنات کا کام ہے، اسی طرح میں قلم چلانے کی سعی کرتا ہوں، مسائل کا حل خدا پاک کے حکم سے ہوتا ہے، وہی ہے جو الفاظ میں تاثیر ڈالتا ہے اور اس کی دی ہوئی توفیق سے متعلقہ افسران پیش رفت کرتے ہیں، میں اس عمل سے نہ ہی اکتاتا ہوں اور نہ ہی ہمت ہارتا ہوں۔ حق تعالیٰ کے فضل و کرم سے ملیر ندی کے اطراف بے شمار ترقیاتی کام ’’امت‘‘ کے فیض سے ہوئے ہیں۔ اب خدا نے چاہا تو ’’امت‘‘ ہی کے ذریعے لیاری ندی کے قریب میں ان گنت عوامی راحت رسانی کے منصوبے پایۂ تکمیل کو پہنچیں گے۔ آپ ’’امت‘‘ پر بھروسہ رکھئے، وہ گائوں، گوٹھوں، کچی آبادیوں اور نواحی بستیوں کے محنت کش، پسماندہ، کچلے ہوئے اور مسائل کے انبار تلے دبے ہوئے عوام کی آواز سب سے پہلے حکمرانوں، افسران بالا اور عوامی نیابت کاروں تک پہنچانے کا کام پوری تندہی سے کرتا رہے گا… میری تحریری کاوش کا مقصد اور نصب العین یہ ہے کہ عوام کو درپیش بنیادی مسائل کو ارباب اختیار تک پہنچا دیا جائے۔ تعلیم، روزگار، صحت، مواصلات اور فراہمی و نکاس سے جڑے ہوئے مسائل کو متعلقہ حکام تک پہنچایا جائے۔ ساتھ ہی ان کا ممکنہ حل بھی بتایا جائے۔ میرا وژن آر بی ایف یعنی روڈز، برجز اینڈ فلائی اوورز کے گرد گھومتا رہتا ہے۔ میری خواہش ہے کہ شہر کراچی میں بھی ٹرانسپورٹ کی دستیابی اور مواصلات کی سہولیات ویسی ہی فراہم ہو جائیں جیسی ترقی یافتہ ممالک یا کم از کم مشرق بعید اور خلیجی ریاستوں میں موجود ہیں۔ ساتھ ہی میری تمنا ہے کہ کراچی شہر میں مثالی امن و امان ہو، صفائی ستھرائی کا آئیڈیل نظام ہو اور ہر طرف شجرکاری کے سبب ہریالی ہو۔ گویا ’’دیکھو اے ساکنان خطۂ خاک… اس کو کہتے ہیں عالم آرائی‘‘ کی صورت حال سارے شہر کو سجا دے۔ اس حوالے سے میں آپ سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ درختوں اور پودوں سے زمین کی آرائش و زیبائش کی جائے۔ درختوں اور پودوں کو زمین کا زیور کہا جاتا ہے۔ قدرت نے اشجار کو حیران کن نعمت بنایا ہے۔ سورۂ رحمن میں رب العالمین نے فرمایا کہ درخت بھی اپنے خالق کو سجدہ کرتے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اشجار زمین کو آلودگی، فضا کو گندگی اور انسانوں اور دیگر حیوانات کو موسم کی سختی سے محفوظ رکھتے ہیں۔ میں کورنگی میں ڈسٹرکٹ ملیر سے متصل ایک ایسی ہائوسنگ اسکیم میں رہتا تھا، جہاں زمین قدرتی طور پر زرخیز تھی، پھر چونکہ میں اسی مقام پر ایک پرائیویٹ اسکول چلاتا تھا، اس لیے سٹی گورنمنٹ ہو یا کے ایم سی یا پھر ڈی ایم سی، ان کے شعبۂ باغبانی کے دردمند اور حساس افسران اور دیگر کارکنان ارادتاً میرے پاس آتے اور معصوم بچوں کے صدقے ازخود اسکول والے گھر کا 48×50 فٹ کا لان اور کیاریاں پورے خلوص کے ساتھ مینٹین کرتے، آبیاری سے لے کر ہر موسم کے پھولوں کے پودوں کی فراہمی کی ذمے داری رضاکارانہ اٹھاتے۔ ان کا کہنا تھا کہ استاد محترم کا گھر اور تعلیمی ادارہ اس علاقے کی پہچان ہے، اس کی دیکھ بھال کرنا ہمارا فرض ہے۔ گل محمد بلوچ اور نواز بلوچ متعلقہ افراد کی مدد کرتے اور سال بھر ہمارا صحن رنگ برنگے پھولوں کی خوشبو سے مہکتا رہتا۔ نیم کے گھنے اور سایہ دار درختوں کے نیچے اسکول کے فارغ اوقات میں پیارے پیارے بچے اور اساتذہ راحت حاصل کرتے۔ سہ پہر اور شام کے وقت راہ گیر ان درختوں کے ٹھنڈے سائے تلے چند ساعتوں کے لیے آرام کرتے۔ میری ایک عزیزہ نے جو آج کل امریکہ میں ہیں، اس جگہ کو مزید آرام دہ بنانے کے لیے بیرونی برآمدے کے ایک کنارے پر الیکٹرک واٹر کولر نصب کرا دیا۔ گویا وہ قطعۂ اراضی خدا پاک کی نعمتوں سے بھر گیا تھا اور مخلوق خدا کے لیے سکون اور سکینت کا گوشہ بن گیا تھا۔ 2018ء میں جب میرے گھرانے کا آب و دانا کھانا پینا اور رزق روزی گڈاپ ٹائون میں لکھ دی گئی تو ہم سب اس مائنڈ سیٹ کے ساتھ ایک ایسی ہائوسنگ اسکیم میں آبسے، جہاں خدا پاک نے باغبانی کے لیے ایک عمدہ ٹکڑا زمین کا ہمارے نام کر دیا۔ اس سوسائٹی کے ضوابط اور طریقہ کار کے مطابق اس ٹکڑے کی ہمواری اور ابتدائی آبیاری انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔ گھر کے استقبالی پورچ کے ساتھ ہی ایک کھجور کا درخت بھی لگا دیا گیا ہے اور چار مزید پودوں کی فراہمی کا وعدہ کیا گیا ہے، جو تادم تحریر ہمیں نہیں دیئے گئے ہیں۔ اب ہم ذاتی کوششوں کے ذریعے اپنے قطعۂ اراضی کو زمین کے زیورات سے سجا رہے ہیں۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ جہاں تک ممکن ہو، ہم زمین کو ہرا بھرا رکھیں۔ کراچی شہر میں دھول، مٹی، گرد و غبار اور دھوئیں کی وجہ سے فضائی آلودگی نے سینے کے امراض اور موسمی درجہ حرارت میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے۔ لازمی ہے کہ انفرادی اور اجتماعی طور پر زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں۔ تمام ادارے بالخصوص سرکاری شعبۂ باغبانی کو چاہئے کہ شہر میں جنگی بنیادوں پر شجرکاری کریں۔ عوامی پارکوں سے تجاوزات صاف کر کے ان میں پودے اور درخت لگائے جائیں۔ گڈاپ ٹائون میں شجرکاری کی اشد ضرورت ہے، تاکہ کوہ کیرتھر کے بنجر دامن کو زمین کے زیورات سے سجا دیا جائے۔ یاد رکھئے ریت، بجری، سیمنٹ اور کنکریٹ کا جنگل اگا دینا فضائی اور زمینی آلودگی کا سبب بنتا ہے، جبکہ شجرکاری اور گھاس اور پھولوں سے زمین کو سجانے سے تازہ ہوا میسر آتی ہے۔ اس کارخیر کو صدقۂ جاریہ جان کر اس میں بھرپور حصہ لیجئے۔ ہماری آئندہ نسلوں کو پرفضا اور آلودگی سے پاک ماحول فراہم کرنا ہمارے اوپر فرض بھی ہے اور ان ننھی جانوں کا قرض بھی ہے۔
٭٭٭٭٭
Next Post