جو چال ہم چلے، نہایت بری چلے!

0

انگریزی کی مشہور کہاوت ہے: ’’اگر تم کاروبار سیکھنا چاہتے ہو تو صرف کاروباری چالیں کی مت سیکھو، بلکہ مکمل کاروبار سیکھو۔‘‘
ملکی سیاست کو مکمل طور پر کاروبار بنا کر چلانے والے آصف زرداری اصولی طور پر تو اوپر والی انگریزی نصیحت سے اتفاق کریں گے، مگر عملی طور پر ان کا مزاج انہیں کبھی بھی اس بات کی اجازت نہیں دے سکتا کہ وہ سیاسی چالوں سے باز آئیں۔ ان کا خیال ہے کہ آج ان کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ ان چالوں کی وجہ سے ہے۔ ان چالوں کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے نواب شاہ کے ایک چھوٹے زمیندار کا وہ بیٹا جو جنرل ضیاء کے دور میں بلدیاتی انتخاب بھی نہیں جیت پایا، وہ ملک کا صدر منتخب ہو گیا۔ کیا اس سے بڑا بھی کوئی عہدہ ہو سکتا ہے؟ اگر ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو اپنی باقی زندگی سکون کے ساتھ گزارنے کو ترجیح دیتا، مگر وہ کمزور صحت کے باوجود بھی وہ سیاسی چالیں چلنے میں مصروف ہیں، جو انسان کے ذہن کو تھکا دیتی ہیں۔
سیاست کے کھیل کا موازنہ شطرنج سے کیا جاتا ہے، مگر شطرنج میں صرف ایک بازی ہارنا پڑتی ہے۔ مگر سیاست میں انا کے ساتھ بہت کچھ گنوانا پڑتا ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے ساری زندگی جو کچھ کمایا تھا، اسے بچانے کے لیے جو چالیں وہ اس وقت چل رہے ہیں، ان میں سے کوئی چال کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آج کل میڈیا میں بینکنگ کورٹ میں حاضر ہونے کے لیے اپنی بہن فریال تالپور کے ساتھ ہر پیشی کے دوراں نئی گاڑی میں آتے ہیں اور کیمرا کی طرف دیکھ کر جبراً مسکراتے ہیں۔ حالانکہ اس میں مسکرانے کی تو کوئی بات نہیں۔ اگر وہ حق پر ہوتے تو ان کے ہونٹوں پر ہنسی کے بجائے غصہ ہوتا۔ مگر ان کی یہ مسکراہٹ بھی ایک چال ہے۔ وہ یہ چال چلتے ہوئے اپنے مخالفین کو یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ عدالتوں میں پیش ہونے کے عادی ہیں اور وہ جیل کی سختیوں سے نہیں گھبراتے۔ بلاول بھٹو نے گزشتہ روز تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ہم نے ضیاء اور مشرف کی جیلیں دیکھی ہیں۔ عمران خان کی جیل میں بھی جانے کو تیار ہیں۔‘‘ بلاول بھٹو نے تو پوری زندگی میں تھانے پر چند گھنٹے نہیں گزارے۔ جیل تو بہت دور کی بات ہے۔ جیل کے سلسلے میں وہ اپنی بات نہیں کر رہے۔ ان کا اشارہ آصف زرداری کی امکانی گرفتاری کی طرف تھا۔
اس وقت پوری پیپلز پارٹی میں ایک خوف کا عالم ہے۔ دس برس کے دوران جس نے جتنا مال کمایا ہے، وہ اتنا پریشان ہے۔ پارٹی کے اہم افراد کی پریشانی کا بوجھ بھی قیادت پر ہے۔ قیادت کو معلوم ہے کہ حراست میں ہر کوئی طوطے کی طرح بولتا ہے اور ہدایت دینے والوں کے صرف ایک اشارے پر طوطے کی طرح آنکھیں پھیرتے ہوئے دیر نہیں کرتا۔ قیادت یہ بھی جانتی ہے کہ اب پارٹی کے پاس وہ کارکن نہیں، جن کی وجہ سے اسٹریٹ پاور جنم لیتی ہے۔ وہ اسٹریٹ پاور مضبوط حکومتوں کو بھی مجبور بنا دیتی ہے۔ ایک دور وہ تھا، جب پیپلز پارٹی کے پاس نہ صرف سب سے زیادہ کارکن تھے، بلکہ وہ کارکن جیالے بھی تھے اور ان میں قربانی کا جذبہ بھی تھا۔ اگر پیپلز پارٹی آج سیاسی کارکنوں کے حوالے سے ایک غریب پارٹی ہے تو اس کا سبب وہ چالیں ہیں، جو چلتے ہوئے مال کمایا گیا اور کارکنوں کی صورت میں موجود سیاسی سرمایہ لٹایا گیا۔ آج پیپلز پارٹی کے پاس مال تو ہے، مگر وہ حال نہیں جو مشکل حالات کا مقابلہ کر پائے۔ سب کو معلوم ہے۔ سندھ میں بہت سارے لوگ جانتے ہوں گے، لیکن پورے سکھر کو پتہ ہے کہ جب خورشید شاہ کارکن تھا، تب اس کے پاس ایک موٹر سائیکل ہوا کرتی تھی، مگر وہ پارٹی کے لیے وہ موٹر سائیکل بیچ کر احتجاجی جلسہ منعقد کرتا تھا۔ آج اس کے پاس ایک سے زائد پراڈو ہیں، مگر وہ سیاسی طور پر بہت کمزور ہو چکا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ لوگ ساری زندگی ایک سطح پر نہیں رہتے۔ ان کی زندگی اور حالات میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔ مگر نظریاتی اور حقیقی پارٹیوں میں ایک طرح کی بھرتی ہوتی رہتی ہے۔ اگر کوئی کارکن سینئر ہونے کے بعد لیڈر بنتا ہے تو اس کی جگہ نیا کارکن لے لیتا ہے۔ پیپلز پارٹی میں ایک عرصے سے بھرتی کا وہ عمل رکا ہوا ہے۔ یہ پالیسی نہیں، بلکہ ان سیاسی چالوں کا نتیجہ ہے، جن سیاسی چالوں کی وجہ سے پارٹی کے لیڈران مالی طور پر امیر ہوتے گئے اور پارٹی سیاسی طور پر غریب ہوتی چلی گئی۔
پیپلز پارٹی کو جتنا نقصان آصف زرداری کی چالوں سے ہوا ہے، اتنا نقصان تو آمریت کے کسی بھی دور میں بھی نہیں ہوا۔ این آر او سے لے کر پارٹی قیادت پر شخصی قبضہ کرنے اور پارٹی کے بااصول افراد کو پیچھے دھکیل کر ذاتی وفاداروں کو آگے لانے سے تک، یہ وہ عوامل ہیں، جن سے وہ پارٹی سیاسی طور پر بہت کمزور ہوگئی، جو پارٹی کبھی ملک کی سب سے بڑی اور طاقتور پارٹی تھی اور یہ سب کچھ سیاست کو کاروبار کی طرح اور اس کاروبار کو صرف چالوں کے ساتھ چلانے کی وجہ سے ہوا ہے۔ آصف زرداری کو علم تھا کہ 2018ء کے انتخابات میں ان کی پوزیشن ایسی نہیں ہوگی کہ وہ مرکز میں حکومت بنا پائیں۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اگر وہ پارٹی قیادت سے وقتی طور پر علیحدہ ہوگئے تو عمران خان بلاول کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنانے کے لیے بھی راضی ہو جاتے، مگر آصف زرداری پارٹی کے عہدے سے برائے نام بھی دور ہونے کے لیے تیار نہ تھے۔ ان کا خیال تھا کہ نواز شریف سے دور رہ کر وہ عمران خان سے فائدہ حاصل کرتے رہیں گے، کیوں کہ عمران خان کی دس بارہ سیٹوں پر بنیاد رکھنے والی حکومت کبھی نہیں چاہے گی کہ وہ آصف زرداری پر ایسا وقت آئے کہ وہ میاں نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔ آصف زرداری کا خیال تھا کہ وفاقی حکومت کمزور ہونے کی وجہ سے سندھ میں انہیں کھلی چھوٹ دے گی اور گزشتہ دس برس کی طرح وہ یہ پانچ سال بھی پیٹ بھر کر کھائیں گے، مگر اس بار آصف زداری کی ساری چالیں الٹی پڑ رہی ہیں۔
نواب شاہ کے چھوٹے سے شہر دولت پور سے گرفتار ہونے والے آصف زرداری کے قریبی ساتھی اسماعیل ڈاہری تو رہا ہوگئے، مگر اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید کے رہا ہونے کی کوئی امید پیدا نہیں ہو رہی۔ انور مجید اپنے بیٹے سمیت اسپتال سے اس جیل میں منتقل ہو چکے ہیں، جہاں شراب کو شہد اور زیتون میں تبدیل کرنے والے شرجیل میمن پہلے سے موجود تھا۔ یہ سب لوگ جو اس وقت پیپلز پارٹی کا سب سے بڑا اثاثہ ہیں، وہ چالیں چلنے والے لوگ ہیں۔ ان سب کو چالیں چلنے کا فن اس آصف زرداری نے سکھایا۔ آصف زرداری نے ڈاکٹر عاصم سے لے کر شرجیل میمن تک سب کو یہ سمجھایا ہے کہ جیل جاتے ہی واکنگ اسٹک پکڑ لینا اور جیل سے رہا ہوتے ہی بھاگ کر باہر آنا۔ اس وقت آصف زرداری اور ان کے قریبی ساتھی چالیں تو چل رہے ہیں، مگر ان کی ایک چال بھی کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی۔ سپریم کورٹ میں منی لانڈرنگ کا مقدمہ سنجیدہ صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ کی ہدایت پر بننے والی جے آئی ٹی کا دائرہ کشادہ ہو رہا ہے۔ اب اس امکان کا بھی اظہار ہو رہا ہے کہ جے آئی ٹی کے جال میں سندھ کے سابق اور موجودہ حکمران بھی آسکتے ہیں۔ آصف زرداری اور ان کی بہن اس وقت جیل سے باہر ہیں، مگر ان دونوں کا نام ای سی ایل میں شامل کیا گیا ہے اور انہیں بتایا گیا ہے کہ وہ بغیر اجازت ملک سے باہر نہیں جا سکتے۔
آصف زرداری نے پارٹی کو کمزور کرکے خود کو طاقتور بنانے کی چال چلی تھی۔ وہ چال تو اس وقت کامیاب ہوئی، مگر اب وہ وقتی کامیابی بہت بڑی ناکامی کی صورت واپس لوٹ رہی ہے۔ آصف زرداری نہ صرف آف دی ریکارڈ بلکہ آن دی ریکارڈ بھی کہتے تھے کہ ’’نیب کو کیا جرأت کہ وہ مجھ پر مقدمہ بنائے‘‘ اب ایف آئی اے نے نہ صرف ان پر مقدمہ بنایا ہے، بلکہ اس مقدمے کی وجہ سے ان کے اہم ترین ساتھی گرفتار بھی ہیں اور ان پر خود گرفتاری کی ڈیموکلس والی تلور لٹک رہی ہے۔ آصف زرداری اس وقت بھی چالیں چلنے کے لیے آزاد ہیں۔ انہیں ایک بھرپور چال چلنے کا موقعہ تو میاں نواز شریف نے بھی دیا ہے، مگر وہ خوف کی وجہ سے ایسی کوئی چال چلنے کے لیے تیار نہیں، جو ان کے لیے مصیبت کا سبب بن جائے۔ آصف زرداری اس وقت بہت پریشان ہیں۔ وہ اس وقت پارٹی کے ان افراد کی طرف مدد کے لیے دیکھ رہا ہے، جن کی طاقت کے نشے میں توہین کی گئی۔ ان افراد کی اہمیت کا احساس انہیں اس وقت ہوا ہے، جب ان کی کوئی چال بھی کام نہیں کر رہی۔ وہ جو چال چلتے ہیں، وہ ان کے لیے نئے مسئلے کا سبب بنتی ہے۔ اس لیے انہوں نے مزید چالیں چلنے سے اپنا ہاتھ روک دیا ہے، مگر ہاتھ روکنے سے ہارتی ہوئی بازی جیت میں تبدیل نہیں ہوتی۔ دوستووسکی نے لکھا ہے کہ ’’ایک وقت آتا ہے جب جواری کی قسمت کا ستارہ اس کے اوپر رقص کرتا ہے۔ اس وقت وہ آنکھیں بند کرکے بھی کھیلتا ہے تو جیت جاتا ہے، مگر جب اس کی قسمت کا تارہ گردش میں آجاتا ہے، تب وہ دونوں آنکھیں کھول کر بھی کھیلتا ہے تب بھی ان کے دونوں ہاتھ خالی ہو جاتے ہیں۔‘‘
حکمت عملی ہمیشہ مددگار ہوتی ہے۔ جب کہ چال چلنے کا شاید ایک وقت ہوتا ہے۔ وہ وقت آصف زرداری گزار چکے ہیں۔ جب چالیں چلنے کا وقت گزر جاتا ہے، تب انسان کی کیفیت ایسی ہو جاتی ہے، جس کیفیت کے بارے میں اردو کے استاد شاعر شیخ ابراہیم ’’ذوق‘‘ نے فرمایا ہے:
’’کم ہوں گے اس بساط پر ہم جیسے بدقمار
جو چال ہم چلے وہ نہایت بری چلے‘‘
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More