مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی بدترین ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے۔ جمعرات کے روز بھی سری نگر، اننت ناگ اور بڈگام میں پانچ کشمیری نوجوانوں کو شہید کیا گیا۔ ایک ہفتے کے دوران قابض فوج کے ہاتھوں شہید ہونے والوں کی تعداد انیس تک پہنچ چکی ہے۔ سری نگر میں شہید ہونے والے ایک نوجوان کے جنازے پر بھی بھارتی فوج نے شیلنگ کی، جس کے بعد مظاہرے پھوٹ پڑے اور کشمیری نوجوان پاکستانی پرچم اٹھا کر سڑکوں پر آگئے۔ فوج نے مظاہرین پر پیلٹ گنوں سے فائرنگ کرکے ایک درجن افراد کو زخمی کر دیا۔ مقبوضہ وادی میں اس بھارتی دہشت گردی کے خلاف جمعہ کے روز مکمل ہڑتال کی گئی۔ کاروباری مراکز اور تعلیمی ادارے بند رہے۔ قابض انتظامیہ نے بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق کو گھروں میں نظر بند کر دیا، جبکہ یاسین ملک کو پولیس نے گرفتار کرلیا تاکہ وہ بھارت مخالف احتجاج میں شرکت نہ کرسکیں۔ کشمیری نوجوانوں نے تمام تر رکاوٹوں کو عبور کر کے پوری مقبوضہ وادی میں بھارت مخالف مظاہروں میں شرکت اور قابض قوت کے خلاف نعرے لگاتے رہے۔ کشمیر میں بھارت جو کچھ کر رہا ہے، اسے ساری دنیا کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔ مگر اقوام متحدہ سمیت کئی عالمی ادارے کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہنے والا بھارت اسّی ہزار سے زائد کشمیریوں کو شہید، لاکھوں کو زخمی، بے گھر اور معذور کر چکا ہے۔ ان کا جرم صرف اتنا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق جینا اور بھارتی پنجہ تسلط سے آزاد ہونا چاہتے ہیں، جو دنیا کے ہر قانون میں ان کا بنیادی حق ہے۔کشمیری اپنے حق خودارادیت کیلئے تحریک چلا رہے ہیں، جسے اقوام متحدہ نے بھی اپنی قراردادوں میں تسلیم کیا ہے۔ لیکن بھارت اپنی طاقت کے بل بوتے پر گزشتہ ستر برسوں سے کشمیریوں کو ان کے اس بنیادی انسانی حق سے محروم کر رکھا ہے۔بھارت کی یہ بھول ہے کہ وہ طاقت کے روز پر کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو دبانے میں کامیاب ہو گا۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد کشمیر بھر میں یہ نعرے بلند ہو رہے ہیں کہ اب ہر ماں ایک برہان وانی کو جنم دے گی۔ کشمیر کی تحریک آزادی اب پڑھے لکھے نوجوانوں کے ہاتھ ہے۔ جو سوشل میڈیا کے ذریعے سے اپنا پیغام دنیا بھر میں کامیابی سے پہنچا رہے ہیں۔ یہ شہدا کے خون کی برکت کا اعجاز ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ کشمیر میں آزادی کی تحریک چلانے والوں کا جوش و جذبہ بڑھتا جا رہا ہے۔ گولیاں، بیڑیاں، گرفتاریاں اور زیرحراست شہادتیں ان کے ولولوں کو مزید تقویت پہنچا رہی ہیں۔کشمیریوں کی تحریک آزادی ایک فیصلہ کن موڑ پر پہنچ چکی ہے۔ جس کا اعتراف خود بھارتی فوجی افسران بھی کرنے لگے ہیں۔ لیکن کشمیریوں کی ان لازوال قربانیوں کے باوجود پاکستان کی طرف سے جس بے حسی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، اسے افسوسناک بلکہ شرمناک قرار دیا جاسکتا ہے۔ سابقہ حکومت میں محض خانہ پری کیلئے کشمیر کا نام لیا جاتا رہا۔ مگر وزیراعظم عمران خان نے اپنی پہلی تقریر میں جہاں کراچی کے کچرے تک کا تذکرہ کیا، مگر شاید بھارت کی ناراضی کے خوف سے انہوں نے کشمیر کا نام تک نہیں لیا۔ ادھر بھارت کشمیر میں خون کی ندیاں بہانے میں مصروف تھا اور شہیدوں کی لاشوں کو سڑکوں پر گھسیٹ کر انسانیت کا سر شرم سے جھکا رہا تھا، مگر ہمارے وزیراعظم مذاکرات کیلئے بھارتی قیادت کی منتیں کرنے لگے۔ جس کے جواب میں بھارت الٹا پاکستان کو جنگ کی دھمکیاں دینے لگا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ کشمیری ہماری بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ قائد اعظم کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ قرار دے چکے ہیں۔ اس لئے کشمیر کو اپنی پالیسی میں اولین مقام دینے کی ضرورت ہے۔ کشمیریوں پر ہونے والے بھارتی مظالم کو پوری دنیا کے سامنے اجاگر کرنے کیلئے سنجیدہ کوشش کرنی چاہئے۔ وہ پاکستانی پرچم اٹھا کر جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں، زندگی بھر کیلئے بینائی سے محروم ہو رہے ہیں، جیل کی کال کوٹھڑیوں میں جوانیاں گزار رہے ہیں اور ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ اور ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے دیوانہ وار نعرے لگا کر موت کا استقبال کر رہے ہیں۔ مگر ہم ان کی قربانیوں کو پرکاہ برابر بھی کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں۔ہماری بے حسی سے کشمیری نوجوان مایوس ہوگئے تو اس کا جو نقصان ہوگا، اس کا تصور کرنا ہی محال ہے۔
اطلاعات تک رسائی کا عالمی دن
دنیا بھر میں ہر سال اٹھائیس ستمبر کو اطلاعات تک رسائی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ ترقی کے اس دور میں ہر چیز آن لائن دستیاب ہے، اس لئے مہذب ممالک میں حکومتی ادارے اپنی ویب سائٹس پر ضروری معلومات جاری اور انہیں اپڈیٹ کرتے رہتے ہیں، جن سے عوام متعلقہ اداروں سے متعلق کسی وقت بھی معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ کرپشن اور بدعنوانی کے خاتمے اور حکومتی معاملات میں شفافیت کو یقینی بنانے میںاطلاعات تک رسائی کا بڑا عمل دخل ہے۔ کہنے کو اپنے ملک میں بھی گزشتہ برس اس حوالے سے ایک قانون بنایا جا چکا ہے۔ مگر حکومت اس قانون پر عملدرآمد میں مکمل طور پر ناکام ہے۔ اس قانون کی رو سے تمام وزارتوں سمیت جملہ وفاقی سرکاری اداروں کے لیے لازم ہے کہ وہ ازخود انکشاف کے تحت انتالیس مختلف اقسام کی اطلاعات اپنی اپنی ویب سائٹس پر مہیا کریں۔ لیکن انسانی ترقی اور جمہوریت کی ترویج پر کام کرنے والی تنظیم انسٹیٹیوٹ فار ریسرچ، ایڈووکیسی اینڈ ڈویلپمنٹ کی اٹھائیس ستمبر کی مناسبت سے تیار کردہ ایک ریسرچ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کل انتالیس وفاقی وزارتوں میں سے سترہ وزارتوں کی تو اپنی ویب سائٹس ہی نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ جن انتیس وفاقی وزارتوں کی اپنی ویب سائٹس بن چکی ہیں، ان میں سے بھی اکثریت نے کم از کم انتالیس اقسام کی وہ معلومات صارفین کو آن لائن مہیا نہیں کیں، جن کا معلومات تک رسائی کا وفاقی قانون تقاضا کرتا ہے۔ بعض وزارتوں کی جانب سے عوام کو انتہائی بنیادی قسم کی معلومات بھی فراہم کی جاتیں۔ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف نعروں کی بنیاد پر قائم ہوئی ہے اور اسے شفافیت پر یقین رکھنے کا دعویٰ ہے۔ مگر تاحال اس کی جانب سے بھی اس قانون پر عملدرآمد کے کچھ آثار نظر نہیں آتے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ضروری معلومات عوام کو ازخود فراہم کرنا یہ کسی حکومت کا امتحان ہے کہ وہ شفافیت، احتساب اور اچھے گڈ گورننس پر کتنا یقین رکھتی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس ترقی یافتہ دور میں تو ہر چھوٹے ادارے، بلکہ افراد نے بھی اپنی ویب سائٹس بنا رکھی ہے۔ مگر بعض وفاقی وزارتوں نے ابھی تک اپنی ویب سائٹس کھولنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی۔ امید ہے کہ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت اس پر توجہ دے گی۔
٭٭٭٭٭
Prev Post