’’مجھے تو انگریز نہ خرید سکا‘‘

0

مسجد حرام کے مدرس مولانا محمد مکی حجازی مدظلہ بیان کرتے ہیں:
مسعود کھدرپوش (بہت بڑے بیوروکریٹ اور حضرت امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے عقیدت مند) جب ملتان کے ڈپٹی کمشنر تھے تو انہوں نے قاضی احسان شجاع آبادیؒ سے کہا: ہم شاہ جیؒ کا کوئی کام نہ کر سکے، کوئی خدمت نہ کر سکے، میرے پاس کون سے پیسے ہیں کہ شاہ صاحب کی خدمت میں پیش کروں، لیکن ایک کام ہو سکتا ہے کہ شاہ صاحب بھی تو مہاجر ہیں، امرتسر سے ہجرت کرکے تشریف لائے ہیں، وہاں خدا نے انہیں سب کچھ دیا تھا، حویلی تھی، گھر تھے۔ یہاں ہم ان کیلئے ایک مکان الاٹ کروا لیتے ہیں، میں چونکہ ڈی سی ہوں، تم ایک درخواست لکھو۔
قاضی صاحب نے شاہ صاحب کی جانب سے ڈی سی کے نام درخواست لکھی۔ اس نے اسی وقت سارا عملہ پابند کر دیا کہ ملتان میں کسی ہندو کی اچھی سی حویلی تلاش کرو۔ دو دن کے اندر عملے نے ایک بہت بڑے ساہوکار کی بڑی حویلی تلاش کر لی۔ کاغذات مکمل کر لیے گئے، اس کی صفائی کروائی گئی، چونا کروایا گیا، اسے اس طرح سنوارا گیا جیسے کسی بڑے کی آمد آمد ہے، ڈی سی مسعود کھدر پوش نے شاہ جیؒ کے نام الاٹمنٹ کر دی اور دستاویز اور چابیاں قاضی احسانؒ کو دیں کہ حضرت شاہ صاحبؒ کی خدمت میں پیش کرو، میں جاتا ہوا اچھا نہیں لگتا۔
قاضی احسانؒ حضرت شاہ صاحبؒ کی خدمت میں پہنچ گئے تو شاہ صاحب نے پوچھا: ’’ہاں بھئیاحسان! کیا چیز ہے؟‘‘
قاضی صاحبؒ نے کہا کہ حضرت یہ مکان کی چابیاں ہیں۔
شاہ صاحبؒ نے فرمایا: اچھا بھئی! ہم بھی اس عمر میں مکان والے بن گئے، چلو شکر ہے کہ ہم بھی کرائے کے مکان سے نکل رہے ہیں، لیکن یہ ملا کیسے؟
قاضی احسانؒ نے ساری کہانی سنا دی۔
شاہ جی نے فرمایا: ساری زندگی مجھے انگریزی نہ خرید سکا، تم نے مجھے ایک مکان کے عوض بیچ دیا ہے۔ یہ دستاویز لے جائو اور مسعود کھدرپوش کو کہنا تمہیں یہ جرأت کیسے ہوئی؟ تم مجھے ایک عرضی لکھنے والا بنا رہے ہو، مجھے کسی حویلی کی ضرورت نہیں ہے۔ آئندہ کبھی میرے گھر نہ آنا۔
قاضی صاحبؒ کہتے ہیںکہ میں اور مسعود بیٹھے روتے رہے۔ ہمیں شاہ صاحب کی محفل میں جانے کی اجازت نہ تھی۔ 6 مہینے گزر جانے کے بعد سخت سردیوں کی رات میں جب شاہ جیؒ تہجد کیلئے اٹھے تو انہیں احساس ہوا کہ کوئی باہر ہے۔ دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ایک آدمی بیٹھا ہے۔ جب فجر کیلئے دوبارہ نکلے تو وہ شخص پھر بھی بیٹھا تھا۔ شاہ جی نے پوچھا: کون؟
حضرت! آپ کا غلام ہوں، پہچان لیا کہ قاضی احسان ہیں۔ فرمایا: اب پھر میرا کوئی سودا کرنے آئے ہو؟
انہوں نے کہا حضرت! غلطی ہو گئی ہے۔ غلطی تو خدا تعالیٰ بھی معاف کر دیتے ہیں، کیا آپ کی لغت میں غلطی پر معافی کی گنجائش نہیں؟
یہ سن کر شاہ صاحبؒ نے فرمایا: اچھا جائو، معاف کر دیا۔ (کعبہ کے سائے میں)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More