میرے مطالبے پر ایک شخص انگلش ترجمے والا قرآن کریم لے آیا اور مجھے سورۃ الصف کی اس آیت کا ترجمہ پڑھ کر سنایا، جس میں حضرت یسوع مسیحؑ نے فرمایا: ’’میرے بعد ایک نبی آئیں گے، جن کا نام احمد (محمدؐ) ہو گا۔‘‘
یہ سن کر گویا مجھے میری گم شدہ متاع مل گئی اور میں خوشی سے جھومنے لگا۔ پھر میں نے مسجد میں موجود لوگوں سے کہا کہ میں کس طرح اس نبیؐ کا پیروکار بن سکتا ہوں، جس کی مسیحؑ نے بشارت دی ہے؟ انہوں نے کہا یہ بالکل آسان ہے، تم یہ کلمات دہراؤ کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں، محمدؐ اس کے بندے اور رسول ہیں، عیسیٰؑ مریمؑ کے بیٹے اور خدا کے رسول ہیں، خدا نہیں۔
میں نے یہ کلمات پڑھ کر اسلام قبول کیا، جس پر مجھے ایسی خوشی ملی جو زندگی میں کبھی نہیں ملی تھی۔ میں خوشی سے گھر بھاگا اور اپنے والد کو خوشخبری سنائی۔ یہ خوشخبری سن کر گویا میرے والد پر بجلی گری اور وہ مجھ پر ٹوٹ پڑے اور مجھے گھسیٹ کر ایک کمرے میں لے جا کر پہلے میری پٹائی کی اور مجھ سے کہا آئندہ ان لوگوں کے پاس گیا تو تیری خیر نہیں۔ اس کے بعد مجھے گھر کے ایک کمرے میں قید کر دیا گیا۔ دو وقت کا کھانا وہاں ہی لایا جاتا اور پھر دروازے کو باہر سے بند کر دیا جاتا۔ تاہم اس کے باوجود میں اپنے مؤقف پر ڈٹا رہا، مسلسل قید و بند سے ایک تو میری پڑھائی متاثر ہونے لگی، دوسرا میرے والد کو خدشہ ہوا کہ اگر پولیس کو پتہ چل گیا کہ میں نے اپنے بچے کو قید بے جا میں رکھا ہوا ہے تو کیس بن جائے گا، اس لئے ایک ہفتے بعد مجھے رہا کر دیا اور میں اسکول جانے لگا۔
اسکول میں، میں ہر بچے اور ٹیچر کو اسلام کی دعوت دینا شروع کر دی۔ جس پر کلیسا کے اسکول کی انتظامیہ نے میرے والد کو نوٹس بھیجا کہ آپ کا بچہ ’’گمراہ‘‘ ہو گیا ہے اور دوسرے بچوں کے ذہن بھی خراب کر رہا ہے۔ جس پر میرے والد نے مجھے میرے دادا کے پاس تنزانیہ بھیجنے کا پروگرام بنایا۔ میرے دادا وہاں مشنری خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اگلے ہفتے مجھے تنزانیہ روانہ کر دیا گیا۔ وہاں پہلے تو دادا نے مجھے نرمی سے سمجھنے کی کوشش کی، لیکن میں اپنے مؤقف پہ ڈٹا رہا۔ تنزانیہ میں بھی بہت مسلمان تھے۔ میں ان کے پاس مسجد میں آتا جاتا رہا اور میری اسلامی معلومات میں اضافہ ہوتا رہا۔
امریکہ میں مجھے گھر والوں کی جانب سے زیادہ مار پٹائی کا سامنا نہیں تھا، لیکن دادا مجھ پر بدترین تشدد کرنے لگے۔ وہاں موجود مسلمانوں نے ہر قیمت پر میرا ساتھ دینے کا عزم کیا، جس سے مجھے کافی حوصلہ ملا۔ جب دادا نے دیکھا کہ میں باز نہیں آنے والا تو انہوں نے میرے والد سے مشورہ کر کے مجھ سے ’’جان چھڑانے‘‘ کا منصوبہ بنالیا۔
ایک مرتبہ مجھے کھانے میں زہر ملا کے کھلایا گیا۔ کھانا کھانے کے بعد ہی مجھے احساس ہو گیا کہ کھانے میں کچھ ملا ہوا ہے۔ میں نے باہر آکر قے کی اور وہاں موجود مسلمانوں کی مدد سے اسپتال پہنچا۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ مجھے انتہائی خطرناک قسم کا زہر کھلایا گیا ہے، مگر خدا کے فضل و کرم سے اس سے مجھے کوئی نقصان نہیں ہوا۔ اسپتال سے فارغ ہو کر میں مقامی مسلمانوں کے ہمراہ روانہ ہوگیا۔ دادا کو چونکہ میرے زندہ بچ جانے کا علم تھا، اس لئے انہوں نے شرمندگی سے دوبارہ رابط نہیں کیا اور نہ ہی میرے والدین نے مجھے واپس بلایا۔
بعد ازاں میں تنزانیہ کے مسلمانوں کے ساتھ ایتھوپیا چلا گیا۔ وہاں کے مسلم علماء نے مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اب پورے افریقہ میں، میں علماء کے ساتھ گھومتا ہوں، اسلام سیکھتا ہوں، اس کی دعوت دیتا ہوں اور زندگی بھر اسی کو مشن بنانے کا عزم کررکھا ہے۔‘‘
شیخ عبد العزیز کا کہنا ہے کہ نو مسلم نونہال اپنی ایمان افروز داستان بیان کر کے خاموش ہوا تو مجھے ہوش آیا اور دیکھا میری داڑھی آنسوؤں سے تر ہو چکی ہے۔ اتنے چھوٹے بچے کی ایسی استقامت پر میں حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھا۔
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post