یہودی عالم کیوں مسلمان ہوا؟

0

ارشاد خداوندی ہے:
ترجمہ: ’’ہم نے آپ پر اتاری ہے نصیحت (یعنی قرآن پاک) اور ہم اس کے نگہبان ہیں۔‘‘ (پ 14 س حجر آیت 9)
امام قرطبیؒ نے مذکورہ آیت مبارکہ کے تحت سند متصل کے ساتھ ایک واقعہ امیر المؤمنین مامون کے دربار کا نقل کیا ہے کہ مامون کی عادت تھی کہ کبھی کبھی اس کے دربار میں علمی مسائل پر بحث و مباحثے اور مذاکرے ہوا کرتے تھے۔ جس میں ہر اہل علم کو آنے کی اجازت تھی۔ ایسے ہی ایک مذاکرہ میں ایک یہودی بھی آگیا۔ جو صورت و شکل اور لباس وغیرہ کے اعتبار سے بھی ایک ممتاز آدمی معلوم ہوتا تھا۔ پھر گفتگو کی، تو وہ بھی فصیح و بلیغ اور عاقلانہ گفتگو تھی۔ جب مجلس ختم ہوگئی، تو مامون نے اس کو بلا کر پوچھا تم اسرائیلی ہو؟ اس نے اقرار کیا، مامون نے (بطور امتحان) کہا کہ اگر تم مسلمان ہوجاؤ تو ہم تمہارے ساتھ بہت اچھا سلوک کریں گے۔ اس نے جواب دیا کہ میں تو اپنے اور آباؤ اجداد کے دین کو نہیں چھوڑتا۔ بات ختم ہوگئی۔ یہ شخص چلا گیا، پھر ایک سال کے بعد یہی شخص مسلمان ہوکر آیا اور مجلس مذاکرہ میں فقہ اسلامی کے موضوع پر بہترین تقریر اور نہایت عمدہ تحقیقات پیش کیں۔
مجلس ختم ہونے کے بعد مامون نے اس کو بلا کر کہا کہ تم وہی شخص ہو جو سال گزشتہ آئے تھے؟ جواب دیا: جی ہاں وہی ہوں۔ مامون نے پوچھا کہ اس وقت تو تم نے اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔ پھر اب مسلمان ہونے کا سبب کیا ہوا؟ اس نے کہا: میں یہاں سے لوٹا تو میں نے موجودہ مذاہب کی تحقیق کرنے کا ارادہ کیا، میں ایک عمدہ خطاط (کاتب) اور خوش نویس ہوں، کتابیں لکھ کر فروخت کرتا ہوں تو اچھی قیمت سے فروخت ہوجاتی ہیں۔ میں نے امتحان کرنے کے لئے تورات کے تین نسخے کتابت کئے، جن میں بہت جگہ اپنی طرف سے کمی بیشی کردی اور یہ نسخے لے کر میں کنیسہ (یہودیوں کا عبادت خانہ) میں پہنچا، یہودیوں نے بڑی رغبت سے ان کو خرید لیا۔
پھر اسی طرح انجیل کے تین نسخے کمی بیشی کے ساتھ کتابت کرکے نصاریٰ کے عبادت خانہ میں لے گیا۔ وہاں بھی عیسائیوں نے بڑی قدر و منزلت کے ساتھ یہ نسخے مجھ سے خرید لئے، پھر یہی کام میں نے قرآن کے ساتھ کیا، اس کے بھی تین نسخے عمدہ کتابت کئے، جن میں اپنی طرف سے کمی بیشی کی ہوئی تھی۔ ان کو لے کر جب فروخت کرنے کے لئے نکلا تو جس کے پاس بھی لے گیا، اس نے دیکھا کہ نسخہ صحیح بھی ہے یا نہیں۔ جب اسے کمی بیشی نظر آئی تو اس نے مجھے فوراً واپس کردیا۔ اس واقعہ سے میں نے یہ سبق لیا کہ یہ کتاب محفوظ ہے اور واقعی خدا تعالیٰ نے اس کی حفاظت کی ہوئی ہے۔ اس لئے میں مسلمان ہو گیا۔
قاضی یحییٰ بن اکثمؒ اس واقعہ کے راوی کہتے ہیں کہ اتفاقاً اسی سال مجھے حج کی توفیق ہوئی، وہاں حضرت سفیانؒ سے ملاقات ہوئی، تو یہ قصہ ان کو سنایا۔ انہوں نے فرمایا کہ بے شک ایسا ہی ہونا چاہئے۔ کیونکہ اس کی تصدیق قرآن پاک میں موجود ہے۔ یحیٰی بن اکثمؒ نے پوچھا قرآن کریم کی کون سی آیت مبارکہ میں؟ تو فرمایا قرآن کریم نے جہاں تورات وانجیل کا ذکر کیا ہے، اس میں فرمایا: یہود و نصاریٰ کو کتاب تورات و انجیل کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ (پ 6 س المآئدہ آیت 44)
یہی وجہ ہوئی کہ جب یہود و نصاریٰ نے فریضۂ حفاظت ادا نہ کیا تو یہ کتابیں مسخ و محرف ہوکر ضائع ہوگئیں، بخلاف قرآن کریم کے کہ اس کے متعلق حق تعالیٰ نے فرمایا: ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔ اس لئے حق تعالیٰ نے اس کی حفاظت خود فرمائی ہے۔
لہٰذا دشمنوں کی ہزاروں کوششوں کے باوجود اس کے ایک نقطہ اور ایک زیر زبر میں فرق نہ آسکا۔ آج عہد رسالت کو بھی چودہ سو برس ہوچکے ہیں۔ تمام دینی اور اسلامی امور میں مسلمانوں کی کوتاہی اور غفلت کے باوجود قرآن کریم کے حفظ کرنے کا سلسلہ تمام دنیا کے مشرق و مغرب میں اسی طرح قائم ہے، ہر زمانہ میں لاکھوں، بلکہ کروڑوں مسلمان جوان، بوڑھے، لڑکے اور لڑکیاں ایسے موجود رہتے ہیں جن کے سینوں میں پورا قرآن کریم محفوظ ہے، کسی بڑے سے بڑے عالم کی بھی مجال نہیں کہ ایک حرف بھی غلط پڑھے، اسی وقت بہت سے بڑے اور چھوٹے بچے اس کی غلطی پکڑلیں گے۔ (معارف القرآن جلد 5 ص 281 تا 283)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More