وزیر خانم کو قلعہ معلی سے نکل جانے کا حکم دے دیا گیا

0

وزیر خانم کی آنکھوں کے گرد روتے روتے ورم آگیا تھا۔ اس کے صاحبِ عالم مرزا فتح الملک بہادر جس دن مرے تھے اس کے بعد سے وہ بستر پر لیٹی تھی اور زمین پر سونا اور ایک وقت موٹا جھوٹا کھا کر گزر کرنا اس کا معمول ہو گیا تھا۔ مرشد زادہ آفاق کی زندگی میں وہ ان کی محبت میں اتنی گم اور اس قدر خوش رہتی تھی کہ باوجود خطاب شوکت محل کے، وہ قلعے کی سرگرمیوں میں بہت کم حصہ لیتی تھی۔ جب مرزا محمد دارا بخت ولی عہد بہادر اللہ کو پیارے ہوئے تو اس نے ان کی تجہیز و تکفین سے لے کر دوئم، سوئم، چہلم اور پھر چھ ماہی اور برسی کی رسوم میں البتہ پورا پورا حصہ لیا۔ اسے تقدیر کی ستم ظریقی کہئیے کہ ان رسوم، اور مرنے والے کے تئیں قلعہ اور بیرون قلعہ کے لوگوں کی محبت اور عقیدت کو دیکھ کر اسے ایک طرح کی طمانیت محسوس ہوئی۔ اسے ہمیشہ استقلال و استمرار کی تلاش رہی تھی اور وہ طالب سے زیادہ مطلوب بن کر رہنا چاہتی تھی۔ حویلی مبارک میں اسے دونوں چیزیں میسر ہوتی نظر آرہی تھیں۔ موتی کے تئیں اتنی مفصل اور طویل المدت رسوم کا انعقاد دیکھ کر اسے ایک طرح کی خوشی ہوئی کہ میرے صاحب عالم کا خدا نہ کردہ جب وقت آیا تو ان کا وہ حال نہ ہو گا جو بلاک صاحب، نواب صاحب اور آغا صاحب کا ہوا کہ جب انہیں موت نے پکارا تو ان پر رونے والا کوئی نہ تھا۔ میں رہوں یا نہ رہوں، اس نے اپنے دل میں کہا، لیکن قلعے کی رسمیں تو باقی رہیں گی۔
چہلم کے تیسرے دن وزیر خانم کی خدمت میں ملکہ دوراں کا پیغام آیا کہ آپ کی یاد ہو رہی ہے، جلد تشریف لے چلئے۔ وزیر کا ماتھا ٹھنکا۔ ملکہ دوراں نے پہلے کبھی اس طرح یاد نہیں فرمایا تھا۔ شاید تعزیتی کلمات کہنا چاہتی ہوں، اس نے دل میں کہا۔ ہرچند کہ مرزا فتح الملک شاہ بہادر کی ولی عہدی کے بعد زینت محل نے وزیر اور اس کے بچوں سے خطاب و تکلم کم و بیش بند ہی کر دیا تھا، لیکن شاید اس موقع پر ان کے دل میں کچھ درد آگیا ہو۔ وزیر نے جلد جلد منہ پر چار چھینٹے مارے، آئینہ دیکھے بغیر اٹکل سے بالوں میں کنگھی کی، اور سفید لیکن صاف کپڑے پہن کر نواب زینت محل کی ڈیوڑھی پر حاضر خدمت ہوئی۔ نواب زینت محل نے معمولی طور پر اس کا استقبال کیا اور اپنے سامنے بٹھایا۔ کچھ دیر سکوت رہا، پھر ملکہ عالیہ نے ارشاد فرمایا:
’’چھوٹی بیگم، ہمیں تمہاری بیوگی پر بہت افسوس ہے‘‘۔ وہ ایک پل رکیں۔ وزیر شکریئے کے کچھ رسمی کلمات کہنے ہی والی تھی کہ ملکہ دوراں نے سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے فرمایا۔ ’’لیکن تم تو ایسے سانحوں کی عادی ہو چکی ہو۔ اسے بھی سہ جائو گی۔ انواسی کا کلیجا مضبوط ہوتا ہے، لوگ کہے ہیں‘‘۔
ملکہ دوراں کی بعض منہ لگی مصاحبوں نے دوپٹہ منہ پر رکھ کر ہنسی روکنے کی کوشش کی، لیکن بعض دوسری خواصوں کے چہرے پر کبیدگی کے آثار نمایاں ہوئے۔
وزیر کو یہ سمجھنے میں کوئی مشکل نہ ہوئی کہ ان توہین آمیز کلمات کا مقصد محض توہین نہیں۔ اصل مقصد یہ تھا کہ وزیر سے کوئی خلاف ادب یا خلاف مصلحت بات کہلا دی جائے اور بعد میں اسے وزیر کے خلاف استعمال کیا جائے۔ اس نے سر جھکا کر کہا:
’’نیند تو سولی پر بھی آجاتی ہے ملکہ دوراں۔ واقعہ کتنا ہی سخت ہو، لیکن تاب لائے ہی بنتی ہے۔ میں تو اللہ کے حضور میں آپ اور ظل سبحانی کی درازی عمر اور صحت و دولت اور اقبال کی دعا کرتی ہوں۔ آپ دونوں کا سایہ میرے لیے بہت ہے‘‘۔
زینت محل ایک لمحے کے لیے خاموش ہو گئیں۔ انہیں ایسے جواب کی توقع نہ تھی۔ پھر گلا صاف کر کے وہ بولیں:
’’ولی عہد بہادر مرحوم تمہارے لیے کیا کیا چھوڑ گئے ہیں چھوٹی بیگم؟‘‘۔
اب وزیر نے سر اٹھا کر اور کمر سیدھی کر کے جواب دیا: ’’ولی عہد بہادر کا احوال مجھ سے زیادہ ملکہ دوراں اور ظل الٰہی پر روشن ہے‘‘۔
’’تمہیں ان کی ڈیوڑھی خالی کرنی ہو گی‘‘۔
’’ملکہ دوراں شاید بھولتی ہیں۔ میں چھوٹی بیگم ہی نہیں، شوکت محل بھی ہوں‘‘۔
’’تم شوکت محل تھیں۔ اب نہیں ہو‘‘۔ زینت محل نے ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا۔
’’یہ فیصلہ تو وہی کرے گا جس نے مجھے یہ خطاب عطا کیا تھا‘‘۔
’’چھوٹی بیگم۔ کسی فریب میں نہ رہنا۔ تم نے ہمارے بھولے بھولے مرزا فخرو بہادر کو شیشے میں اتار کر قلعہ شاہی میں پائوں دھنسا لیے، اس توقع پر کہ تم بھی تیموری شاہزادیوں میں شمار ہو گی۔ پھر بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا اور تم ولی عہد سوئم کی بیگم کے بجائے ہندوستان کی ملکہ بننے کے امکانات میں مگن ہو گئیں۔ تم جیسیوں نے کتنے ہی اینٹ کے گھر مٹی کر دیئے۔ لیکن قدرت خداوندی بھی کوئی چیز ہے…‘‘۔
وزیر سے ضبط نہ ہو سکا اور اس نے ملکہ کی بات کاٹنے کی گستاخی کی پروا کئے بغیر نرم لیکن مضبوط آواز میں کہا۔ ’’ملکہ عالم پر خوب عیاں ہے کہ میں کن حالات میں قلعہ مبارک میں آئی۔ میں تو اپنے صاحب عالم و عالمیان کی خاک برابر بھی نہیں۔ انہوں نے مجھے ذرے سے آفتاب کیا، ورنہ میں اپنی کال کوٹھڑی میں صبر سے رنڈاپا کاٹ رہی تھی‘‘۔
’’ٹھیک ہے‘‘۔ زینت محل تیز لہجے میں کہا۔ ’’جس نے تمہیں ذرے سے آفتاب کیا اب وہ خود تہ خاک ہے۔ اب تم پھر وہی ذرۂ خاک ہو، جو یہاں آنے کے پہلے تھیں‘‘۔
’’لیکن سرکار عالیہ‘‘۔ وزیر نے تھوڑے سے طنز سے کہا۔ ’’میں پھر بھی ولی عہد ہندوستان کی بیوہ ہی کہلائوں گی۔ آگے کوئی ولی عہد ہو، کوئی بادشاہ ہو، لیکن یہ چتر میرے حقیر سر کے اوپر سے کوئی اتار نہیں سکتا‘‘۔
’’کیوں نہیں؟‘‘۔ زینت محل کو جوش آگیا۔ ’’ہم اتار سکتے ہیں‘‘۔
’’ملکۂ دوراں۔ آپ اپنے قلعہ معلیٰ میں کچھ بھی ڈھنڈورا پٹوا دیں، لیکن نقارۂ خدا کی آواز بند نہیں کر سکتیں‘‘۔ وزیر نے متانت سے کہا۔ ’’لیکن آپ فرمائیں اس بندی سے آپ کیا خدمت لیا چاہتی ہیں۔ بندی ہر طرح سے تیار ہے‘‘۔
’’یہ صرف ہمارے قلعے کی بات نہیں۔ ہم اب بھی ہندوستان کی ملکہ ہیں۔ ہمارے سر پر جو مکٹ ہے وہ نور جہاں اور ارجمند بانو کے سر پر تھا۔ ہمارے پیارے فرزند مرزا فخرو بہادر کا اس دار فانی سے منہ موڑ لینا اس بات کا اشارہ رکھتا ہے کہ اللہ کو منظور نہیں کہ ان کے بعد کوئی شخص غیر یہاں تاج و تخت کا وارث بنے‘‘۔
’’تاج و تخت آپ کو اور مرزا جواں بخت بہادر کو مبارک ہو، مجھے اس سے کچھ غرض نہیں‘‘۔
’’لیکن ہمیں پرچہ لگا ہے کہ تم مرزا مغل بہادر سے مل کر سازباز کر رہی ہو کہ مرزا مغل بہادر بادشاہ ہوں اور خورشید مرزا کو ولی عہد قرار دیا جائے‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More