پاکستانی حدود میں آپریشن کی ایرانی تیاری

0

تہران/ پشاور/ کوئٹہ(امت نیوز / نمائندگان امت) ایران نے پاکستان میں آپریشن کیلئےتجویز نما دھمکی دیدی ہے ۔ ایرانی وزیر داخلہ کا کہنا ہےکہ پاکستان میں آپریشن کی ضرورت ہے ۔کارروائی کیلئے ایرانی فوجی تیار ہیں ۔کارروائی پاکستان کی اجازت سے اور اس کی نگرانی میں ہونی چاہئے ۔ایران کا کہنا ہے کہ پاکستان کی مدد سے گزشتہ ماہ اغوا کے بعد پاکستانی سرزمین منتقل کئے گئے5 ایرانی فوجی رہا کرا لئے گئے ہیں ۔ گیڈر دھمکیاں دینے والی ایرانی قیادت نےپاکستان کی جانب سے اپنے ساحلی شہر چابہار میں بھارتی خفیہ ایجنسی را کے حاضر سروس فوجی افسر کل بھوشن کی گرفتاری کے باوجود بھارتی خفیہ ادارے کا نیٹ ورک، بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں،متحدہ لندن اور فرقہ واریت پھیلانے والے گروپوں کے دہشت گردوں کیخلاف اب تک کوئی کارروائی نہیں کی ۔ایران کی دھمکی ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب چند روز قبل ہی پاکستان پولیس کے سینئر افسر ایس ایس پی طاہر خان داوڑ کو اسلام آباد سے اغوا کر کے افغان صوبہ ننگر ہار منتقل کیا گیا ، جہاں انہیں قتل کیا گیا ۔افغانستان کی حکومت کی جانب سے معاملے میں عدم تعاون کا رویہ برقرار ہے ۔افغان حکام نے پہلے طاہر خان داوڑ کی لاش پاکستانی حکام کے حوالے کرنے سے انکار کرتے ہوئے اسے دم توڑتی ہوئی پختون نسل پرست تنظیموں کے رہنماؤں کے حوالے کرنے پر اصرار کیا تھا ۔قوم پرست جماعتوں اور طاہر داوڑ کے بھائی نے وفاقی حکومت کی قائم کردہ جے آئی ٹی کو مسترد کرتے ہوئےعالمی تحقیقات کا مطالبہ کر دیا ہے ۔جے آئی ٹی نے قتل کی از سرنو تفتیش،مقتول کے بھائی اور اہلخانہ کو شامل تفتیش کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اسلام آباد کے کیمروں کا ریکارڈ طلب کر لیا ہے ۔ تفصیلات کے مطابق ایران کی جانب سے ایک بار پھر پاکستانی سرزمین پر اپنے مطلوب افراد کے خلاف کارروائی کیلئے تجویز نما دھمکی دیدی ہے ۔ہفتہ کو ایرانی وزیر داخلہ عبدالرضا رحمانی فاضلی نے پاسداران انقلاب کے سربراہ میجر جنرل علی جعفری کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ایران کی داخلی سلامتی کے ذمہ دار اور کابینہ کے رکن کی حیثیت سے میں اعلان کرتا ہوں کہ ایران کے فوجی پاکستانی سرزمین پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے کو تیار ہیں۔ایرانی وزیر داخلہ نے کہا کہ آپریشن کی ضرورت ہے اور یہ اسی صورت میں کئے جائینگے جب پاکستان کسی بھی وجہ سے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے پر تیار نہ ہوا۔کارروائیاں پاکستان کی اجازت اور نگرانی میں کی جائیں گی۔ پہلے ہم نے پاکستان کی خود مختاری کے احترام میں ہی سرحد پار کارروائیاں نہیں کی تھیں ۔ایران اور پاکستان کو سرحدی امور پر تعاون و انٹیلی جنس روابط بڑھانا ہوں گے ۔ انہوں نے اس موقع پر ایرانی سیکورٹی و قانون نافذ کرنے والے اداروں اور وزارت خارجہ کی وجہ سے ایرانی فورسز کے 5 اہلکار رہا کرانے کا اعلان کیا ،جنہیں اکتوبر کے وسط میں پاکستانی سرحد کے قریب ایرانی کی حدودسے 7 دیگر افراد کے ہمراہ اغوا کیا گیا تھا ۔ایرانی پاسداران انقلاب کے سربراہ میجر جنرل علی جعفری کا کہنا ہے کہ مبینہ دہشت گردوں کے ہاتھوں گزشتہ ماہ اغوا 5 ایرانی فوجیوں کو رہا کرانے میں پاکستان نے بھر پور تعاون کیا تھا ۔ایرانی وزیر داخلہ عبدالرضا رحمانی فاضلی نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ پاکستان مکمل تعاون کرے اور سرحدوں کی سیکورٹی میں تعاون کو بڑھائے۔ایران کا دعویٰ ہے کہ اس کے فوجیوں کو ایرانی سنی تنظیم جیش العدل کے مبینہ دہشت گردوں نے اکتوبر کے وسط میں ایرانی صوبہ سیستان و بلوچستان کے قصبہ میر جاوہ سے اغوا کر کے پاکستانی علاقے میں منتقل کیا تھا ۔ جیش العدل کا موقف ہے کہ ایرانی حکومت سنی آبادی سے امتیازی سلوک کرتی ہے ، اسی وجہ سے وہ ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوئے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایرانی فوج پاکستان سے متصل سرحدی علاقے کے قریب اکثر مبینہ دہشت گردوں کیخلاف کارروائیاں کرتی رہتی ہے ۔ اس دوران پاکستان کے سرحدی دیہات اکثر و بیشتر ایرانی افواج کی گولہ باری کا نشانہ بنتے رہتے ہیں ۔11 اپریل 2018 کو ایرانی صوبہ سیستان بلوچستان کے قصبہ میرجاوہ میں ہی جیش العدل نے مقابلے کے دوران ایران کے 11 اہلکار مار ڈالے تھے ۔ ایران کا دعویٰ ہے کہ تصادم میں شریک جیش العدل کے کارکنان بعد ازاں پاکستانی علاقے میں چھپ گئے تھے ۔پاکستان کے اندر کارروائیوں کیلئے بے چین ایرانی حکومت کی جانب سے پاکستان کے خدشات اور تحفظات دور کرنے کیلئے کبھی سنجیدہ کوشش سامنے نہیں آئی ۔ذرائع کے مطابق ایران کے ساحلی شہر چا بہار میں بھارتی خفیہ ایجنسی را کے حاضر سروس فوجی افسر کل بھوشن کی نگرانی میں قائم نیٹ ورک اب بھی قائم ہے ۔بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے اڈے بھی چا بہار سے کام کر رہے ہیں اور انہیں کل بھوشن کی گرفتاری کے باوجود بند نہیں کیا گیا۔ چا بہار میں متحدہ لندن گروپ وفرقہ واریت کو ہوا دینے میں مصروف بعض گروپوں کے دہشت گرد بھی موجود ہیں۔ذرائع کے مطابق چابہار میں جمع یہ عناصر ایک بار پھر پاکستان میں تخریب کاری کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق پاکستانی حکومت نے چا بہار میں دہشت گردی کے اڈوں کی طرف ایرانی حکومت کی توجہ کئی مرتبہ مبذول کرائی لیکن اس ضمن میں کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ نے بھی جے آئی ٹی کے سامنے انکشاف کیا تھا کہ ایرانی خفیہ ادارے بلوچ علیحدگی پسندوں کے علاوہ فرقہ پرست گروپوں کی سرپرستی و فنڈنگ بھی کرتے ہیں۔ہفتہ کوکوئٹہ میں نامعلوم دہشت گردوں کی فائرنگ سے سابق ڈی آئی جی پولیس محمد نعیم کاکڑ اس وقت شہید ہوگئے جب وہ عشاکی نماز ادا کرنے کیلئے جونئیر اسسٹنٹ کالونی کی مسجد میں جارہے تھے۔ڈی آئی جی کوئٹہ عبدالرزاق چیمہ کا کہنا ہے کہ ابھی واردات کو ٹارگٹ کلنگ کی واردات قرار نہیں دیا جاسکتا۔سابق ڈی آئی جی کو شہید کرنے کی ذمہ داری تا حال کسی گروپ نے قبول نہیں کی ۔محمدنعیم کاکڑ بلوچستان میں اہم مناصب پر فائز رہے ہیں ۔ ادھر طاہر داوڑ کے بھائی احمد الدین داوڑ نے حکومت کی قائم کردہ جے آئی ٹی کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اغوا پاکستان اور قتل افغانستان میں ہوا۔واردات کی عالمی تحقیقات کرائی جائیں اور جے آئی ٹی کی تشکیل کی جائے ۔ادھر ہفتہ کو مقتول کی رسم قل حیات آباد میں واقع گھر میں ادا کی گئی ۔ اس موقع پر پختون ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود اچکزئی،اپوزیشن لیڈر خیبر پختون اسمبلی اکرم درانی، سابق گورنر اقبال ظفر جھگڑا، اے این پی رہنما ایمل ولی، پیپلز پارٹی خیبر پختون کے صدر ہمایوں خان، سینیٹر بہرہ مند تنگی،ضیا اللہ آفریدی سمیت دیگر سیاسی و سماجی شخصیات نے ورثا سے تعزیت کی۔ایس پی طاہر داوڑ کے قتل کے خلاف اے این پی کے تحت صوبہ بھر میں احتجاجی مظاہرے کئے ۔اے این پی کارکنان نے پشاور پریس کلب پر حاجی غلام احمد بلور ، میاں افتخار حسین ،سید عاقل شاہ،سردار حسین بابک کی قیادت میں احتجاج کیا ۔ مظاہرے میں خواتین بھی شامل ہوئیں۔مظاہرین سےخطاب میں میاں افتخار حسین نے کہا کہ اعلیٰ افسران سے عام آدمی تک ہر شہری دہشت گردوں کے رحم و کرم پر ہے۔ طاہر داوڑ قتل کی تحقیقات ان کے اہل خانہ کی خواہش کے مطابق عالمی اداروں سے کرائی جائے ۔ نقیب اللہ محسود کے قتل کے بعد بھی پختونوں کو ٹارگٹ کرنے والا سلسلہ نہیں تھما۔ اے این پی کے تحت نوشہرہ ،مردان ،ڈیرہ اسماعیل خان بونیر میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے ۔ بونیر کےمظاہرین نے بونیر پشاور،سوات و شانگلہ مرکزی شاہراہیں ٹریفک کیلئے بند کر دیں۔ ہنگو کی تحصیل ٹل میں دوآبہ کے علاوہ شانگلہ،سوات،بنوں، چھتر پلین کے علاوہ قبائلی ضلع خیبر کے لنڈی کوتل بازار میں مظاہرے کئے گئے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More