پولیس کو ستانے میں لندن کےشہری سرفہرست

0

سدھارتھ شری واستو
لندن کے بے صبرے اور جھگڑالو باشندوں نے پولیس کا ناک میں دم کردیا۔ بے سر و پا باتوں اور وہمی خیالات پر پولیس کی مدد طلب کرنا لندن میں معمول بن گیا ہے۔ ایک سال میں ڈھائی ہزار سے زادہ معمولی شکایات درج کروا کر پولیس کو دِق کیا گیا۔ برطانو ی جریدے ڈیلی میل کے مطابق میٹروپولیٹن پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ لندن کے ہزاروں شہری ایسے بھی ہیں جو معمولی معمولی باتوں پر پولیس بلا لیتے ہیں یا کنٹرول روم فون کرکے ’’بے سروپا کمپلین‘‘ کرتے ہیں اور ان پر دبائو ڈالتے ہیں کہ ان کی شکایات پر کارروائی جائے، حالانکہ ایسی شکایات پر کوئی قانونی کارروائی نہیں بنتی۔ البتہ احمقانہ شکایتوں پر پولیس کا قیمتی وقت اور لاکھوں پائونڈز ضرور صرف ہوتے ہیں۔ وزارت داخلہ کی جانب سے ’’فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ‘‘ کے تحت فراہم کی جانے والی 118 صفحاتی دستاویزات میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2016 کے صرف ایک سال میں برطانوی شہریوں نے پولیس کنٹرول روم کو فون کرکے 2,507 شکایات درج کروائیں جن میں کتوں اور مرغیوں سمیت پڑوسیوں کے علاوہ پارکس اور عوامی مقامات پر چلنے پھرنے والے بطور ملزم نامزد کئے گئے تھے۔ ایسی شکایات پر پولیس ڈیپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ افسران سر پکڑ کر رہ گئے۔ ایک لمحہ میں حیران اور پریشان کردینے والی ان شکایات میں ایک پڑوسی نے دوسرے پڑوسی کیخلاف محض اس لئے پولیس کی مدد طلب کرلی کہ اس کا کتا زور سے بھونک رہا تھا اور وہ اس کے اچانک بھونکنے سے خوفزدہ ہوگیاکہ کہیں کوئی چور اس کے گھر میں تو نہیں گھس گیا؟ ایک راہگیر نے گھر کے پڑوس میں رہنے والے فرد کے کتے کیخلاف شکایت درج کروائی کہ یہ ایک نسل پرست کتا ہے اور کالے لوگوں پر بھونکنے کے بجائے مجھ جیسے سفید فام پر بھونک رہا ہے۔ اس لئے اس کتے کو نسل پرستی کے الزام میں گرفتار کیا جائے۔ ایک خاتون نے پولیس کو مطلع کیا کہ اس کے پڑوسی اس کو گھر سے نکال باہر کرنے کی سازشیں کر رہے ہیں، جب پولیس اس خاتون کے گھر پہنچی تو اس نے پڑوسیوں کو فوری گرفتار کرنے کی ڈیمانڈ کی، جب اس سے ثبوت مانگا گیا کہ تو خاتون نے پولیس کو رازداری کے عالم میں کان میں سرگروشی کرکے بتایا کہ میں روزانہ ’’سازشی پڑوسیوں‘‘ کے گھر کے دروازے سے صبح کے وقت کان لگا کر ان کی پلاننگ سنتی ہوں، اسی لئے میں جان گئی ہوں کہ وہ مجھے یہاں سے بھگانا چاہتے ہیں۔ یارک شائر کے ایک باشندے نے پولیس کو مطلع کیا کہ اس کا پڑوسی کتا انتہائی بد معاش ہے اوراس کو وقفہ وقفہ سے بھونک بھونک کر متوجہ کرتا ہے اور جب وہ اس کتے کو دیکھتے ہیں یا گھر سے نکلتے ہیں تو یہ بد معاش کتا چپ ہوجاتا ہے اور ادھر ادھر دیکھنے لگتا ہے اور ایسا رویہ ظاہر کرتا ہے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ لندن کے ایک شکایت کنندہ نے پولیس کو بتایا کہ اس کا پڑوسی نفرت انگیز جرم کا مرتکب ہوا ہے اور وہ ان کے گھر میں بدبو اور بیماری پھیلانے کیلئے حد سے زیادہ سگرٹ نوشی کرتا ہے۔ اس لئے اس کیخلاف کارروائی کی جائے۔ ایک شہری نے میٹرو پولیٹن پولیس کو مطلع کیا کہ اس کے پڑوسی کے کتے کیخلاف کارروائی کی جائے کیونکہ وہ رات کو اسی وقت بھونکتا ہے جب وہ سونے کیلئے بستر پر جاتے ہیں۔ کتوں کیخلاف دلچسپ کمپلین کے حوالہ سے اس رپورٹ میں تصدیق کی گئی ہے کہ ایک باشندے نے تو مقامی سطح پر صرف اس بات پر رولا ڈال دیا کہ اس کے پڑوسی کا کتا اس کا مذاق اُڑاتا ہے اور اس کو دیکھ کر ہنستا ہے۔ برطانوی ٹوری پارٹی کے ایم پی اور سابق اسپیشل کانسٹیبل لندن پولیس ڈیوڈ ڈیویس نے تسلیم کیا ہے کہ لندن کے ہزاروں باشندے فاتر العقل لوگوں جیسی حرکتیں کرتے ہیں اور پولیس کو دق کرنا ان کا بہترین مشغلہ ہے، لیکن پولیس معمولی باتوں پر طلب کئے جانے والوں کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکتی کیونکہ اس سلسلہ میں کوئی قانونی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔ایک شکایت میں ٹینس کورٹ میں کھیلنے والے دو کھلاڑیوں آپس میں محض اس بات پرلڑ گئے کہ مخالف کھلاڑی لائن سے آگے آکر چالاکی سے سروس کرتا ہے، معاملے کو رفع دفع کرنے کیلئے مقام پر پہنچنے والے پولیس آفیسر کا کہنا تھا کہ وہ دو گھنٹے تک دونوں کو سمجھاتا رہا کہ کھیل کو پولیس کا اکھاڑا نہ بنائو اور آپس میں باہمی احترام سے کھیلو لیکن دونوں کھلاڑی متواتر پولیس کو گھسیٹے رہے، جس پر پولیس افسر نے دونوں کو گرفتار کرنے کی دھمکی دے کر بمشکل خاموش کیا اور خود چُپکے سے نکل بھاگا۔ ٹینس میچ کے حوالہ سے ایک اور شکایت کنندہ جو ٹینس کھلاڑی کا باپ ہے، نے پولیس کو مطلع کیا کہ اس کی بیٹی بے ایمان امپائر کی وجہ سے اپنا میچ ہار گئی اور اس سے اس کی ذہنی صحت کو نقصان پہنچا۔ لندن کے ایک شرابخانہ سے پولیس کو کی جانیوالی کال میں ایک شرابی نے دعویٰ کیا کہ اس کو جو شراب دی گئی ہے وہ مقدار میں کم ہے اور ملاوٹی بھی ہے اس لئے پب حکام کیخلاف کارروائی کی جائے۔ ایک اور واقعہ کے بارے میں رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک مقامی شہری نے پولیس کو ایمر جنسی میں گھر بلایا، جس پر پولیس کے دو افسران دوڑ بھاگ کر اس کے گھر پہنچے، لیکن دیکھا یہ کہ پڑوسی برطانوی محکمہ ڈاک کیخلاف شکایت کروانا چاہتا ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ محکمہ ڈاک نے یا ڈاکئے نے ان کو بھیجے جانے والے خط کو کھول کر دیکھا ہے اور پھر ان کو دیا ہے۔ اس پر ڈاکئے اور ڈاک ڈیپارٹمنٹ کیخلاف کارروائی کی جائے۔ شکایت کاجائزہ لینے والے پولیس افسران نے بتایا ہے کہ لفافہ sealed تھا اور اس پر مہر بھی واضح طور پر ثبت تھی جس کا مطلب تھا کہ لفافہ مہر بند ہے اور کھولا نہیں گیا ہے، لیکن کھوسٹ شہری مصر تھا کہ مقدمہ درج کیا جائے اور انکوائری کی جائے، اس کیس میں دونوں افسران نے بالآخر بڑی مشکلوں سے ہینڈل کیا۔ پولیس کو پکانے والے ڈھائی ہزار کیسوں میں ایک کیس بڑا دلچسپ تھا کہ ایک لندن باشندے نے پولیس کو مطلع کیا کہ ایمر جنسی ہے، میرے گھر پہنچو، اس پر پولیس لائو لشکر کے ساتھ اس گھر میں پہنچی تو شہری نے کہا کہ میرے باغیچے میں ایک مرا ہوا چوہا پڑا ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ کسی پڑوسی نے مجھے دق کرنے کیلئے پھینکا ہے، اس مرے ہوئے چوہے کو میرے گارڈن سے ہٹایا جائے اور تحقیقات کی جائے، اس انوکھی شکایت پر اپنا سر پکڑنے اور شکایت کنندہ کو گھورنے والے پولیس افسر نے بڑی شد و مد کے ساتھ اس شکایت کنندہ شہری کوٹھنڈا کیا اور اس سے باغیچے سے مرا ہوا کنگ سائز چوہا نکلوایا۔ ایک دلچسپ شکایت میں موقع واردات پر پہنچنے والے پولیس افسرکو شکایت کنندہ نے بتایا کہ اس کا سفید فام پڑوسی اپنی کار کو اس کے گھر کے سامنے کھڑا کرتا ہے اور یہ اس لئے کرتا ہے کہ وہ سیاہ فام ہیں۔ اس لئے نسل پرستی کا مقدمہ درج کیا جائے۔ لندن پولیس کو ایک بس پر سفر کرنے والے مسافر کی کال موصول ہوئی جس میں اس مسافر کا دعویٰ تھا کہ ڈرائیور چہرے سے خرانٹ اور نسل پرست لگ رہا ہے اس لئے اس کیخلاف کارروائی کی جائے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More