دنیا میں ہر چیز امریکہ کی مرضی کے مطابق نہیں ہوتی۔ امریکہ کے اپنے حالات اس کی خواہشات کے برعکس پیدا ہو جاتے ہیں اور امریکہ کچھ نہیں کرسکتا۔ امریکہ نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اس کے وائٹ ہاؤس میں ڈونالڈ ٹرمپ براجمان ہو جائے گا۔ امریکہ کی خواہش تھی کہ ایک سیاہ فام صدر کے بعد امریکہ کے تخت پر ایک عورت نظر آئے۔ امریکہ کا خیال تھا کہ اس کے لوگ عورت کو اہمیت دیتے ہیں۔ اس لیے ہلیری کے ہارنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مگر امریکہ کی سوچ اپنے عوام کے بارے میں غلط ثابت ہوئی۔ امریکی شہروں نے تو ہلیری کی حمایت کی، مگر امریکہ کے دیہاتوں نے ڈونالڈ ٹرمپ کی حمایت میں بڑھ چڑھ کر کردار ادا کیا۔ جب امریکی صدارتی الیکشن کے نتائج سامنے آئے تو امریکہ پریشان اور ٹرمپ حیران ہو گیا۔
امریکہ نے پہلے کوشش کی کہ وہ ٹرمپ کو کسی طریقے سے صدارت سے دستبرادر کرائے، مگر ٹرمپ کرسی سے چمٹ گیا۔ امریکہ نے اپنے قانون کے دامن پر داغ نہ لگانے کی کوشش کرتے ہوئے ٹرمپ کو کڑوی گولی کی طرح نگل لیا۔ مگر امریکہ کا خیال تھا کہ ٹرمپ ایک بار جب صدارتی سسٹم میں آجائے گا تو وہ سدھر جائے گا۔ اس کے ہاتھ اور اس کی زبان کنٹرول میں آجائے گی، مگر امریکہ کا یہ خیال اور اس کی یہ خواہش بھی پوری نہ ہو پائی۔ صدر ٹرمپ جب بھی میڈیا کی موجودگی میں بولتا ہے تب امریکہ سخت پریشانی میں مبتلا ہوتا ہے۔ ٹرمپ اب تک ہر روز نہیں تو ہر ہفتے کوئی نہ کوئی ایسی بات کہہ دیتا ہے جو امریکی اخبارات کی شرمندہ سرخی بن جاتی ہے۔ جب امریکہ کے اپنے حالات اس کے کنٹرول میں نہیں ہیں تو پھر وہ دنیا کو کس طرح قابو کر سکتا ہے؟
افغانستان امریکی ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ امریکہ نے کتنی کوشش کی، مگر برسوں کے بعد بھی اس کو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ گویا وہ اپنا سر کسی پہاڑ سے ٹکرا رہا ہو۔ کیا امریکہ میں اتنی اخلاقی جرأت ہے کہ اپنی ہار کا اعلانیہ اعتراف کرتے ہوئے کہے کہ اسے افغانستان میں صرف شکست نہیں، بلکہ شکست فاش نصیب ہوئی ہے۔ مغرب کے ادیب اور صحافی بھی امریکہ کی طرح بزدل ہیں۔ وہ دن گئے جب امریکہ میں ہیمنگوے جیسے رائٹرز ہوا کرتے تھے۔ اب امریکہ میں ایسا کوئی مشہور لکھاری نہیں، جس کو امریکہ کا مجرم ضمیر قرار دیا جائے۔ جب بھی مغرب میں ایسا کوئی ادیب پیدا ہوا تو وہ روسیوں کی طرح اس بات کا اعتراف کرے گا کہ امریکہ کا افغانستان میں داخلہ ایک ایسی مہم جوئی تھی، جس کے مقدر میں سوائے شکست کے اور کچھ بھی نہیں آنا تھا۔
دنیا کے باذوق اور ذہین قاری ایسی کتاب کے منتظر ہیں، جس میں امریکی شکست کی ساری کہانی موجود ہو۔ جس کتاب میں تفصیل کے ساتھ تحریر کیا جائے کہ افغانوں نے کس طرح امریکہ کو گھیرے میں لیا۔ جب امریکہ افغانستان میں داخل ہوا تب طالبان شہروں سے نکل کر پہاڑوں میں چلے گئے۔ امریکہ نے سمجھا کہ طالبان کا قصہ تمام ہوا۔ مگر جب امریکہ نے افغانستان میں اپنے ڈیرے ڈالے، تب اس کو محسوس ہونے لگا کہ وہ گھیرے میں آگیا ہے۔ امریکہ افغانستان میں اپنے سارے یورپی اتحادیوں کے ساتھ داخل ہوا تھا۔ مگر طالبان نے جس طرح امریکہ کو تنہا کردیا، وہ زخم امریکہ کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ یہ کوئی پرانی بات نہیں کہ اس پر تحقیق کی ضرورت پیش آئے۔ یہ کل کی بات ہے، جب یورپی ممالک نے جاری جنگ میں امریکہ کا ساتھ چھوڑنا شروع کیا۔ امریکہ کو دو برس کے بعد محسوس ہونے لگا کہ یورپ کے ممالک اس کا اس مہم جوئی میں مزید ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں۔ جرمنی کو یہ احساس بہت جلد ہوا کہ امریکہ خود بھی ڈوب رہا ہے اور اس کو بھی ڈبونے پر تلا ہے۔ اس لیے امریکی خواہشات کے برعکس جرمنی نے افغان طالبان سے رابطے کیے اور ان سے کہا کہ وہ اس جنگ میں شریک نہیں۔ برطانیہ واحد ملک تھا، جس نے امریکہ کا ساتھ نبھانے کی آخر تک کوشش کی۔ برطانیہ نے اس جنگ میں اپنے شہزادے بھی اتارے، مگر وہ اپنے ملک میں عوامی حمایت حاصل کرنے کے سلسلے میں ناکام رہا۔ اب افغانستان کے میدان میں امریکہ کے ساتھ برطانیہ بھی نہیں۔
کاش! یورپ میں اتنی جرأت ہوتی کہ وہ مشترکہ طور پر یہ اعلان کرتا کہ امریکہ کی مہم جوئی میں ان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ یورپی ممالک نے خاموشی کے ساتھ اپنے فوجی افغانستان سے واپس بلائے اور امریکہ ان کو مزید ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں کر سکا۔ اس وقت امریکہ افغانستان میں تنہا ہے۔ کل وہ صرف افغانستان میں داخلی حوالے سے تنہا تھا اور اب وہ علاقائی سطح پر تیزی سے تنہا ہوتا جا رہا ہے۔ ماسکو میں افغان مسئلے پر ہونے والی کانفرنس اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ امریکہ افغانستان کے حوالے سے علاقائی سطح پر اکیلا ہو گیا ہے۔ امریکہ کو اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ وہ کل افغان ایشو پر عالمی سطح پر بھی تنہائی کا شکار ہو جائے گا۔
امریکہ کا خیال ہے کہ اس کی شکست پر صرف پاکستان پردہ ڈال سکتا ہے۔ امریکہ پاکستان پر اس لیے دباؤ بڑھا رہا ہے کہ پاکستان اس کو افغان دلدل سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ امریکہ کا خیال ہے کہ اس کی شکست پر پاکستان پردہ ڈالے اور کوئی ایسی راہ تراشے، جس سے امریکہ کی آخری عزت بچ جائے۔ امریکہ کا خیال ہے کہ افغان طالبان پاکستان کے کہنے پر کوئی ایسا سمجھوتہ کر سکتے ہیں، جس سے امریکہ کو کم از کم اپنے مفادات حاصل ہو جائیں۔ امریکہ سمجھتا ہے کہ افغان طالبان کو صرف پاکستان مذاکرات کی میز پر بٹھا سکتا ہے۔ حالانکہ یہ بات اتنی سادہ اور اس قدر بھی آسان نہیں کہ پاکستان افغان طالبان سے کچھ بھی کہے اور افغان طالبان اس بات کو آنکھیں بند کرکے تسلیم کرلیں۔ پاکستان امریکہ کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کرتا رہا ہے کہ اس کے پاس افغان طالبان کو کنٹرول کرنے کا مکمل اختیار نہیں۔ امریکہ بھی اس حقیقت کو سمجھ چکا ہے کہ موجودہ طالبان وہ طالبان نہیں، جو ملا عمر کے دور میں تھے۔ افغان طالبان جنگ کے میدان کو نہ صرف عسکری یونیورسٹی بنا کر بہت کچھ سمجھنے کے لائق بن چکے ہیں، بلکہ اب وہ سیاست کی شطرنج پر ماہر کھلاڑیوں کی مانند ہر چال بڑی ہوشیاری سے چل رہے ہیں۔ اس وقت افغان طالبان کے سامنے صرف امریکہ نہیں ہے۔ اس وقت افغان طالبان روس اور چین سے اپنے معاملات چلانے میں مہارت حاصل کر چکے ہیں۔ افغان طالبان کو یہ بات کافی عرصے سے معلوم ہے کہ امریکہ
افغانستان میں ایک ہارتی ہوئی جنگ لڑ رہا ہے۔
افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان طاقت کا توازن ایک دوسری صورت اختیار کر چکا ہے۔ اس حقیقت سے طالبان بھی انکار نہیں کرتے کہ امریکہ کے پاس زیادہ ہتھیار ہیں۔ امریکہ معاشی طور پر پہلے سے زیادہ سے کمزور ہے، مگر کوئی احمق بھی امریکہ اور طالبان کے معاشی موازنہ نہیں کر سکتا۔ امریکہ کے پاس اب بھی کروز میزائلز کا بہت بڑا ذخیرہ ہے۔ امریکہ کے پاس اب بھی ان گنت ڈرونز ہیں۔ امریکہ کے پاس وہ ڈیزی کٹر بم بھی ہیں، جو پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر سکتے ہیں، مگر افغان طالبان اور امریکہ میں ایک بنیادی فرق ہے۔ امریکہ کو افغان ایشو کے حوالے سے بڑی عجلت ہے اور افغان مجاہدین کو کوئی جلدی نہیں۔
جنگ ہتھیاروں سے نہیں، ہمت سے لڑی جاتی ہے۔ امریکہ افغانستان میں اپنی ہمت ہار چکا ہے اور افغان طالبان اپنے عمل سے اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ ’’ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔‘‘
افغان طالبان نے چین کے عظیم عسکری دانشور سن زو کی کتاب نہیں پڑھی۔ مگر کامیاب جنگ کے قاعدے انہوں نے میدان میں سمجھے اور سیکھے ہیں۔ طالبان کے پاس بہت وقت ہے اور امریکہ کے پاس وقت نہیں۔ وہ جلد از جلد اس جنگ کو لپیٹنا چاہتا ہے اور افغان طالبان ان سے کہہ رہے ہیں کہ ’’اتنی بھی جلدی کیا ہے؟‘‘
اس وقت افغان جنگ کا سب سے طاقتور ہتھیار صبر اور انتظار ہے۔ افغان طالبان کے پاس اس کا بہت بڑا ذخیرہ ہے اور امریکہ کے پاس اس کے مقابلے میں کچھ نہیں۔ جنگ میں صرف ہتھیار نہیں لڑتے۔ جنگ میں انتظار بھی لڑتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ کے پاس بہت زیادہ ہتھیار ہیں، مگر افغان طالبان کے پاس انتظار ہے۔ انتظار سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ جنگ جاری ہے۔ ایک فریق تنگ آکر کہتا ہے ’’جلدی کرو‘‘ اور دوسرا فریق مسکرا کر جواب دیتا ہے ’’اتنی جلدی کیا ہے؟‘‘
افغانستان کے میدان پر جو جنگ جاری ہے، اس میں ’’انتظار‘‘ سب سے بڑا ہتھیار ہے۔
اور وہ ہتھیار افغان طالبان کے پاس ہے۔ صبر کا ہتھیار۔ سب سے خطرناک ہتھیار۔
یہ ہتھیار چلانے کے سلسلے میں افغان بہت ہوشیار ہیں۔ وہ لوگ جو اپنی ذاتی اور قبائلی دشمنی میں بھی صبر کے ہتھیار کو نسل در نسل استعمال کرنے کے عادی ہیں۔ ان کے لیے اس عالمی جنگ میں اپنا قبائلی اور کلچرل ہتھیار استعمال کرنے میں کون سی مشکل بات ہے؟
امریکہ اور طالبان کے مذاکرات میں اس بات کا بڑا کردار ہے۔ امریکہ مرا جا رہا ہے کہ بات کو ایک طرف کرو، مگر افغان طالبان کا مؤقف ہے:
’’بازو بھی بہت ہیں سر بھی بہت‘‘
امریکہ کے پاس ہتھیار ہیں۔ مگر اس کے پاس نہ بازو ہیں اور نہ سر ہیں۔
دنیا کے سارے ریٹائرڈ اور حاضر سروس جنرل اس حقیقت کو جانتے ہیں کہ امریکہ افغانستان میں اپنی جنگ ہار چکا ہے۔ اب وہ میدان سے جانے کا عزت والے راستے کا پتہ پوچھ رہا ہے۔
افغان طالبان کے آگے تو امریکیوں کی دال نہیں گلتی، اس لیے ان کا سارا پاکستان پر ہے کہ وہ کوئی کردار ادا کرے۔ اس لیے امریکہ اپنے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی معرفت پاکستان پر پریشر بڑھا رہا ہے کہ وہ کچھ کرے، مگر پاکستان کی اپنی مجبوریاں ہیں۔ امریکہ پاکستان کی وہ مجبوریاں سننا نہیں چاہتا اور بے حد تکلیف کے ساتھ وہ پریشان ہوکر کہتا ہے:
’’ڈور مور‘‘ ٭
Prev Post
Next Post