سرفروش

0

قسط نمبر: 178
عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
امر دیپ اور براہم دیپ نے اس کی پُر زور تائید کرتے ہوئے بتایا کہ جامع چھان بین کا یہ عمل پہلے ہی شروع ہو چکا ہے۔ اس موقع پر میں نے تھکن کا بہانہ کر کے ان سب سے اجازت طلب کی اور اپنے کمرے میں آگیا۔ اصل بات یہ ہے کہ مجھے الکھ سنگھ کی موجودگی ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی اور میں جلدازجلد اس کی نظروں کے سامنے سے ہٹ جانا چاہتا تھا۔
بستر پر لیٹنے کے بعد بھی میں الکھ سنگھ کی باتوں پر تلملاتا رہا۔ یہ شخص پہلی ملاقات سے ہی مجھے ایک آنکھ نہیں بھایا تھا اور یہ ہر بار اپنی باتوں سے میرے دل میں اپنے لیے ناراضی بڑھا دیتا تھا۔ آج بھی وہ مجھے اپنے عزیز خاندان سے زیادہ ان بد بخت ڈاکوؤں کا حمایتی لگا تھا۔ اسی ذہنی مخمصے میں جانے کب میری آنکھ لگ گئی۔
صبح جاگنے کے بعد میں غسل خانے سے واپس آیا تو نیرج ناشتے سمیت حاضر تھا۔ اس نے بتایا کہ روانگی سے پہلے جیپ کے معائنے کا عمل جاری ہے۔ ناشتے کے بعد وہ مجھے ساتھ لیے حویلی کے بیرونی احاطے میں واقع گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ لے کر گیا۔ وہاں موجود ایک ڈرائیور نے بتایا کہ گاڑی پوری طرح فٹ فاٹ حالت میں سفر کے لیے تیار ہے۔
اسی دوران میری نظر قریب ہی ایک چھپرے تلے کھڑے چار گھوڑوں پر پڑی، جو کھرلی میں منہ ڈالے پیٹ بھر رہے تھے۔ میں ان سے نظریں ہٹاکر اپنی جیپ کی طرف متوجہ ہوا لیکن میرے دماغ کے کسی گوشے میں ایک چنگاری سی چھوٹی۔ میں نے چونک کر دوبارہ گھوڑوں کی طرف دیکھا۔ وہ ہم سے پندرہ بیس گز کے فاصلے پر تھے اور چمک دار دھوپ میں ان میں سے ایک سفید و سیاہ دھبوں والی پشم والا گھوڑا بالکل واضح دکھائی دے رہا تھا۔
میں نے اپنے ذہن میں ابھرنے والے خیال کو وہم قرار دے کر ذہن سے جھٹکنا چاہا، لیکن میری نظروں نے ایک بار پھر سامنے چارہ کھانے میں مصروف چتکبرے گھوڑے کا بغور جائزہ لیا تو مجھے اپنا شک یقین میں بدلتا محسوس ہوا۔ اس گھوڑے کی سیاہ گردن پر دو چھوٹے بڑے گول سفید دھبے اس انداز میں نمایاں تھے کہ انہیں دیکھ کر کسی سفید خرگوش کا خیال آتا تھا۔ یہ خیال حیرت انگیز طور اس سنگین صورت حال میں بھی میرے ذہن میںابھرا تھا، جب رات کی تاریکی میں ان دونوں ڈاکوؤں نے اپنے گھوڑے جیپ کے سامنے کھڑے کر کے ہمیں روکا تھا اور ہیڈ لائٹس کی تیز روشنی سے بچنے کے لیے دونوں گھوڑے رخ موڑ کر کھڑے ہوگئے تھے۔
میں نے ایک بار پھر چتکبرے گھوڑے کو دیکھا اور نیرج کو مخاطب کیا۔ ’’یار یہ بتاؤ، کیا یہ تمام گھوڑے حویلی والوں کے ہیں؟‘‘۔
نیرج نے میری بات حیرت سے سنی اور کہا۔ ’’ہاں جی، اور کس کے ہوں گے؟ تینوں گھوڑے امر دیپ جی نے بڑے لاڈ سے پال کر بڑے کیے ہیں۔ ان کے کھانے پینے اور دیکھ بھال کا بہت خیال رکھا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک کو تو ریس میں دوڑانے کی تیاری کی جارہی ہے‘‘۔
میں نے قدرے تیز لہجے میں کہا۔ ’’او بھائی، ذرا غور سے دیکھو، وہاں کھرلی پر تین نہیں چار گھوڑے موجود ہیں‘‘۔
میری بات سن کر اس نے غالباً پہلی بار توجہ سے گھوڑوں کو دیکھا۔ پھر قدرے حیرانی سے کہا۔ ’’آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ لیکن ان میں سے تین گھوڑے ہی امر دیپ جی کے ہیں۔ یہ چوتھا، ڈب کھڑبا (چتکبرا) گھوڑا تو میں نے پہلی بار اس حویلی میں دیکھا ہے‘‘۔
میں نے مضطرب لہجے میں کہا۔ ’’میں اسی چتکبرے گھوڑے کا پوچھنا چاہتا ہوں۔ پتا کرو کہ اسے کون یہاں لایا ہے… میرا مطلب ہے اس کا مالک کون ہے؟‘‘۔
اس نے اثبات میں گردن ہلائی۔ ’’سائیس (گھوڑوں کی دیکھ بھال کرنے والا کارندہ) شاید ملازموں والے حصے میں کھانا کھانے گیا ہے۔ آپ ایک منٹ رکیں، میں ابھی اس سے پوچھ کر آتا ہوں‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’سنو، اسے الگ لے جاکر رازداری سے پوچھنا۔ کسی اور کے کانوں میں یہ بات نہ پڑنے پائے، اور چپ چاپ آکر مجھے بتا دو‘‘۔
اس نے میری اس ہدایت پر بھی حرف بہ حرف عمل کرنے کا وعدہ کیا۔ میں اسے حویلی کی طرف بڑھتے دیکھتا رہا، حتیٰ کہ وہ حویلی کے پہلو والے راستے پر مڑ کر نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ تبھی میں نے حویلی کے دروازے میں سے پہلے امر دیپ اور اس کے پیچھے پیچھے الکھ سنگھ کو نکلتے دیکھا۔ امر دیپ نے گلے لگاکر پھوپھا کو رخصت کیا اور حویلی میں واپس چلا گیا۔ جبکہ الکھ سنگھ جیسے کسی گہری سوچ میں ڈوبا، زمین پر نظریں جمائے میری طرف بڑھنے لگا۔
اس نے یقیناً مجھے نہیں دیکھا تھا، اور میں اس کی نظروں میں آکر مجبوراً اس سے باتیں کرنے اور اس کے فضول سوالات کا جواب دینے کے موڈ میں بھی نہیں تھا۔ چنانچہ میں نے تیزی سے پیچھے ہٹتے ہوئے خود کو جیپ کی آڑ میں چھپالیا۔ میں یہ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ بڑے پھاٹک کی طرف جانے کے بجائے وہ اس طرف کیوں آرہا ہے۔
تبھی میں نے نیرج اور حلیے سے معمولی ملازم نظرآنے والے ایک شخص کو حویلی کے بغلی راستے سے نمودار ہوتے دیکھا۔ ان دونوں کی رفتار نسبتاً تیز تھی۔ لہٰذا وہ الکھ سنگھ سے پہلے میرے قریب پہنچ گئے۔ یہ الگ بات ہے کہ جیپ کی آڑ میں ہونے کی وجہ سے میں انہیں دکھائی نہیں دیا تھا۔ اس اثنا میں الکھ سنگھ نے بھی انہیں دیکھ لیا تھا۔ اس نے پندرہ بیس گز دور سے ہی آواز لگا کر سائیس کو حکم دیا ’’یشونت، فٹافٹ میرے گھوڑے پر کاٹھی کس دو، مجھے بہت دور جانا ہے۔ رات حویلی میں رکنا پڑ گیا۔ گھر والے انتظار کر رہے ہوں گے‘‘۔ (جاری ہے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More