ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی
انور صاحب اکثر گوشت ترکاری خریدنے مارکیٹ میں ملتے تو میں ان کے بچوں کا حال پوچھ لیتا۔ وہ افسردگی سے کہتے :’’ رضا صاحب دنیا بھی عجیب ہے، ہم اپنی ساری توانائی اس اولاد پر صرف کرتے ہیں، یہی اولاد ہمیں اس وقت چھوڑ کر بے یارومددگار چلی جاتی ہے، جب ہمیں ان کی ہر لمحہ ضرورت ہوتی ہے۔ ہماری ساری جوانی صرف انہی کی فکر میں گزرتی ہے، ہمارے یہ دو بازو ان بارہ اولادوں کو پالنے میں شل ہو گئے، لیکن بڑھاپے میں یہ چوبیس بازو ہمارے دو جسموں کو سہارا نہیں دے سکتے۔ ڈالر کی لالچ دیتے ہیں ہم کو؟ کیا ڈالر ہماری تنہائی کا مداوا ہو سکتے ہیں‘‘۔
میں سوچتا اس اٹل حقیقت کے بارے میں جس کا جھٹلانا بہت مشکل تھا۔ نادیہ بھی انور صاحب اور ان کی بیگم کی وجہ سے بہت پریشان ہو جاتی، وہ اکثر انور صاحب کی بیگم کی مزاج پرسی کیلئے جاتی تو واپسی پر اداس ہوتی۔ اس کا لہجہ ہمیشہ بھیگا ہوا ہوتا، وہ اداسی سے کہتی: ’’انور صاحب نے اپنے بچوں کو محبت کی زنجیر سے نہیں باندھا، ورنہ محبت کی قید سے کوئی آزاد نہیں ہو سکتا، نہ کوئی بچہ ان کو چھوڑ کر جاتا‘‘۔ نادیہ نے خود پانچوں بیٹوں کو محبت کی ایسی زنجیر میں باندھا تھا کہ بچے ہم دونوں کیلئے ہر وقت تیار رہتے۔ وہ بچپن سے بچوں کو قرآن و احادیث کے حوالے سے یہ بات ذہن میں ڈالتی رہتی کہ جو اولاد اپنے والدین کی خدمت کرتی ہے وہ جنت کی حق دار ہے۔ اس بات کا یقین ان کے دل میں جا گزیں کرتی کہ رازق خدا ہے، اس نے ہر انسان جاندار کو رزق دینے کا وعدہ کیا ہے۔ جو شخص دیانت اور امانت سے کسب حلال کی کوشش کرتا ہے، اسے ہر جگہ سے رزق ملتا ہے۔
انور صاحب کی چھوٹی بہو موجودہ بگڑی نسل کی نمائندہ تھی۔ اس نے اب اپنے شوہر کے ذہن میں یہ بات ڈال دی تھی کہ انور صاحب کی ساری اولاد بیرون ملک اچھی معیشت میں ہے، اس لئے چار سو گز کے اس مکان پر صرف اسی کا حق ہے۔ اس لئے بہتر ہے کہ یہ مکان اپنے نام لکھوا لیا جائے۔ انور صاحب کی بیوی نے یہ بات نادیہ کو بتائی تو وہ پریشان ہوگئی۔ ایک دن مجھ سے کہنے لگی: ’’مجھے ایسا لگتا ہے انور صاحب کی بہو ساس کو سلو پوائزن Slow Poisn دے رہی ہے، کیونکہ ان کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ ہر وقت غنودگی میں پڑی رہتی ہیں، ان کا رنگ بالکل زرد ہو رہا ہے‘‘۔ شاید نادیہ کا گمان درست تھا، ایک دن اچانک ان کا انتقال ہو گیا۔ ڈاکٹر کو دکھایا گیا تو اس نے تشخیص کیا کہ ان کو اور ڈوز دی گئی ہے، جس کی وجہ سے ان کا دل بند ہو گیا۔ بیوی کے انتقال کے بعد انور صاحب نے اپنا بیشتر وقت مسجد میں گزارنا شروع کر دیا، تہجد کیلئے مسجد جاتے تو اشراق کے بعد واپس آتے۔ پھر ظہر کی نماز کیلئے جاتے تو عشاء کے بعد لوٹتے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد میں بھی نماز مسجد میں ادا کرتا تھا۔ میں جب بھی مسجد میں جاتا وہ مسجد کے ایک مخصوص کونے میں قرآن کی تلاوت کرتے ملتے تھے۔ میں جب بھی حال احوال پوچھتا، ان کا لہجہ بوجھل ہو جاتا۔ ایک دن وہ مجھے بہت زیادہ کمزور نظر آئے، میں نے ان کی طبیعت پوچھی تو افسردگی سے بولے: ’’آج کل ڈائٹنگ کر رہا ہوں‘‘۔ ’’کیوں خیریت؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔ وہ تو دبلے پتلے انسان تھے۔ ’’آپ کو ڈائٹنگ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟‘‘ وہ آہستہ سے بولے۔ ’’بہو نے کھانا پکانا چھوڑ دیا ہے‘‘۔ ’’کیوں بیمار ہے کیا؟‘‘ میری حیرت بڑھتی جا رہی تھی۔ ’’نہیں بیٹا کہتا ہے پہلے مکان اس کے نام لکھوں، پھر مجھے کھانا ملے گا۔‘‘ میں اچھل پڑا۔ ’’اف آپ کا ظالم بیٹا پیٹ کی مار مار رہا ہے، ظلم کی انتہا ہے۔‘‘ ’’نہیں اب میرا خود بھی دل نہیں چاہتا ان کا کھانا کھانے کو۔‘‘ وہ بہت دل گرفتہ تھے، آہستہ سے کہنے لگے: ’’میں نے بیٹے کو بہت سمجھایا کہ میری جائیدادیں بارہ اولادوں کا حق ہے، مگر وہ کہتا ہے کسی کو آپ کے اس ٹھیکرے کی ضرورت نہیں ہے، کوئی باہر سے اس ٹھیکرے کا حصہ لینے نہیں آئے گا، سب اچھا کما رہے ہیں باہر۔‘‘
میں نے انور صاحب کی بات سنی تو میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ ’’آپ اس سے یہ کیوں نہیں کہتے کہ وہ اس ٹھیکرے کو لے کر کیا کرے گا؟‘‘ انور صاحب کی پتھریلی آنکھوں سے دل کی ساری تپش غم میں سلگتا ہوا پہلے ایک آنسو نکلا اور اس قطرہ اشک نے ضبط کے بند میں شگاف ڈال دیا۔ اس کے پیچھے رکا ہوا آنسوئوں کا سیلاب امڈ آیا تو اس بند کو ریت کی دیوار کی طرح بہا کر لے گیا۔ وہ بلک بلک کر رونے لگے۔ میرا دل کٹنے لگا۔ خدایا میں کتنا غافل ہوں۔ میرا پڑوسی بھوکا ہے اور میں پیٹ بھر کر تین وقت اچھے سے اچھا کھانا کھاتا ہوں۔ میں پڑوسیوں کے حقوق سے اتنا غافل ہوں۔ خدایا میں اپنی کوتاہی پر شرمندہ ہوں، میں اپنے دل ہی دل میں رب سے توبہ کر رہا تھا۔ میں ان کو اسی وقت اپنے ساتھ اپنے گھر لے گیا۔ نادیہ سے میں مصالحہ کی بیسنی روٹی کی فرمائش کر کے مسجد آیا تھا۔ نادیہ ٹماٹر کی بھنی چٹنی اور اچار کے ساتھ بڑے اہتمام سے بیسنی روٹی پکاتی تھی۔ میں نے گھر جاتے ہی انور صاحب کے ہاتھ دھلوائے اور دستر خوان بھجوا کر گرم گرم بیسنی روٹی ان کے سامنے رکھی۔ بیسنی روٹی کھاتے ہوئے کئی بار انہوں نے آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسو صاف کئے۔ میرے اصرار پر انہوں نے بتایا کہ انہیں بیسنی روٹی بہت زیادہ پسند ہے اور مدت کے بعد پیٹ بھر کر کھانا کھا رہے ہیں۔ میں نے اپنے آپ کو پھر ملامت کی اور اس دن کے بعد میں نے اپنا معمول بنا لیا کہ مسجد جاتے وقت میں انور صاحب کیلئے کھانا ناشتہ دان میں لے جاتا، ایک تھرماس میں چائے اور پیالی، ایک تھرماس میں ٹھنڈا پانی۔ یہ سب چیزیں میں پلاسٹک کے شاپر میں لے جاتا۔ اپنے سامنے ان کو کھانا کھلاتا اور خالی برتن اسی شاپر میں واپس لے آتا۔ انور صاحب نے مجھے بہت پہلے بتایا تھا کہ انہوں نے ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد اپنی پنشن کی رقم کسی کاروبار میں لگا دی تھی، جو سب کی سب ڈوب گئی، کیونکہ کاروبار کا جھانسا دینے والا بہت سے پنشنرز کی رقم لے کر ملک سے فرار ہو گیا۔
وہ سردی کا موسم تھا، خزاں نے اداسی کے رنگ پھیلا دیئے تھے، شہتوت کے ہرے ہرے پتے سردی کھاتے ہوئے مرجھائے ہوئے افسردہ تھے۔ ہوا کے تیز جھکڑ بچے کھچے پتوں کو بھی درخت سے نوچ کر گرانے کیلئے بے چین تھے۔ شدید سردی نے شہتوت کے پتوں کی ساری نمی سکھا دی تھی۔ وہ دن بھر مردہ یا نیم جاں ہو کر گرتے رہے۔ اب اس کی ہری بھری شاخیں پتوں سے بے نیاز ہوتی جا رہی تھیں۔ بعض ٹنڈ منڈ ڈالیاں اپنے پتوں کی تلاش میں ہلتی رہتیں۔ ایسی ہی ایک خزاں رسیدہ شام کو انور صاحب مسجد میں مغرب کی نماز پڑھتے ہوئے بڑی خاموشی سے دنیا سے رخصت ہو گئے۔ سجدے سے سر نہ اٹھایا اور امام صاحب نماز سے فارغ ہو چکے تو نمازیوں کو پتہ چلا۔ ان کی موت کی خبر جب ان کے گھر پہنچی تو ان کی بہو انڈیا کے چینل اسٹار پلس کے ’’کسوٹی زندگی کی‘‘ دیکھ رہی تھی۔ موت کی خبر سنتے ہی اس نے اس طرح بین کئے کہ محلے والی خواتین کو اسے سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ انور صاحب کی میت تیار ہو کر جب شہتوت کے پیڑ کے نیچے رکھی گئی تو درخت کے بچے کھچے آخری پتے بھی ہوا کے تیز جھونکے سے ان کے کفنائے ہوئے جسم پر آ گرے۔ سفید سفید کفن پر سوکھے زرد پتے عجیب بے بسی کا اظہار کر رہے تھے۔ میں نے آہستہ سے ان کے کفن پر سے ان پتوں کو ہٹایا اور اپنے بہتے ہوئے آنسوئوں کو رومال سے صاف کیا تو دو چار پتے اور ان کے کفن پر آ گرے جیسے وہ ان کے ساتھ جانے کی ضد کر رہے ہوں۔ آخر یہ پیڑ انہی نے پروان چڑھایا تھا۔ انہوں نے اس کی پرورش بڑے پیار سے کی تھی۔ اب یہی پیڑ ان کی موت پر اپنا آخری پتہ تک نچھاور کرنے کے لئے تیار تھا۔
٭٭٭٭٭