بنگلہ دیش کی موروثی سیاست

0

مسعود ابدالی
آج کل بنگلہ دیش میں انتخابی ٹکٹوں کی تقسیم کا کام زور شور سے جاری ہے۔ وہاں بھی پاکستان کی طرح سیاسی جماعتیں پارٹی نہیں، بلکہ ذاتی پراپرٹی ہیں۔ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP) کی سربراہ محترمہ خالدہ ضیاء جیل میں ہیں۔ انہیں کرپشن کے کئی مقدمات میں سزا سنائی گئی ہے۔ پہلے خیال تھا کہ خالدہ صاحبہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے موبائل فون کے ذریعے پارٹی ٹکٹ کے خواہش مندوں کا انٹرویو لیں گی۔ یعنی پارٹی کی مرکزی عاملہ اور لاکھوں ارکان میں ایک بھی ایسا قابل اعتماد آدمی نہیں، جو خالدہ ضیاء کی غیر موجودگی میں امیداروں کا انٹرویو لے کر موزونیت کا فیصلہ کر سکے۔ یہاں تک بھی بات ٹھیک تھی۔ لیکن اب سونے پر سہاگہ ہوگیا ہے۔
حکومت نے جیل میں جگہ جگہ Jammer لگا کر موبائل فون کو ناکارہ کردیا ہے۔ چنانچہ فیصلہ ہوا کہ BNP کے بلاول یعنی خالدہ ضیاء کے صاحبزادے طارق الرحمان انٹرویو لیں گے۔ طارق الرحمان صاحب کو بھی عدالت نے کرپشن کے الزام میں 17 سال قید کی سزا سنائی ہے۔ خالدہ ضیاء کے ولی عہد لندن میں ہیں اور بنگلہ دیش حکومت نے انہیں مفرور قرار دیا ہوا ہے۔ اب طارق الرحمان ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے امیدواروں کا انٹرویو لے رہے ہیں۔ کل BNP نے الیکشن کمیشن میں شکایت دائر کر دی کہ حکومت نے نیا پلٹن میں BNP کے آفس کے قریب موبائل فون اور روایتی Landline میں خلل ڈال دیا ہے، جس کی وجہ سے انٹرویو ممکن نہیں اور یہ کام انتخابات میں مداخلت کے مترادف ہے۔ دوسری طرف عوامی لیگ بھی کچی گولیاں نہیں کھیلیں۔ انہوں نے کمیشن کو شکایت داغ دی کہ طارق الرحمان ایک سزا یافتہ مجرم ہے اور قانون کی گرفت سے بھاگا ہوا سزا یافتہ مجرم قانون ساز ادارے کے انتخابات میں امیدواروں کو ٹکٹ کیسے تقسیم کر سکتا ہے۔
ایک اور دوسری سیاسی جماعت جاتیہ پارٹی کا بھی یہی حال ہے۔ جاتیہ پارٹی کے سربراہ اور بنگلہ دیش کے سابق صدر 88 سالہ جنرل حسین محمد ارشاد صاحب کافی عرصے سے علیل ہیں اور ان کی اہلیہ روشن ارشاد صاحبہ پارٹی کے امور نمٹا رہی تھیں۔ گزشتہ روز جب پارٹی کی مجلس عاملہ اور پارلیمانی بورڈ کا مشترکہ اجلاس ہو رہا تھا تو جنرل صاحب اچانک آدھمکے اور فرمایا ’’پارٹی کے تمام فیصلے اور ٹکٹوں کی تقسیم میں خود کروں گا۔‘‘ انہوں نے ٹکٹ کیلئے تمام سفارشات کو بیک جنبشِ قلم منسوخ کر دیا۔ ضعیف جنرل صاحب اب پارٹی ٹکٹ کے 300 خواہش مندوں کا فرداً فرداً خودانٹرویو کریں گے اور ساتھ ہی یہ دھمکی بھی لوگوں کو گوش گزار کر دی گئی کہ انٹرویو سے پہلے ہر امیدوار کو یہ بیانِ حلفی دینا ہوگا کہ وہ جنرل ارشاد کے فیصلے کو برضا و رغبت قبول کرے گا اور اگر اسے ٹکٹ نہ ملی تو وہ آزاد یا کسی اور جماعت کی طرف سے انتخاب نہیں لڑے گا۔ ساتھ ہی یہ تنبیہ بھی کہ انٹرویو میں بہت سخت پوچھے جائیں گے۔
پاکستان سے علیحدگی کے بعد ہمارے بنگالی بھائیوں نے بھی موروثی سیاست کا وہی انداز اختیار کر رکھا ہے، جس کا عذاب ہم بھگت رہے ہں۔ جیسے ہمارے یہاں سروں پر چاندی سجائے سرتاج عزیز، راجہ ظفر الحق اور خواجہ صفدر جیسے بزرگ مریم نواز اور حمزہ شریف جیسے بانکوں کے آگے بچھے بچھے لگتے ہیں یا خورشید شاہ جیسے بزرگ فدویانہ انداز میں عزیزم بلاول سے ہدایات لیتے نظر آتے ہیں۔ ایسے ہی ڈھاکہ میں باپ دادا کی عمر کے ڈاکٹر کمال حسین اور مرزا قمر الزماں پارٹی ٹکٹ کے لئے طارق الرحمان کے آگے زانوئے ادب تہہ کئے بیٹھے ہیں۔ لگتا ہے کہ حالیہ اور سابق دونوں پاکستان میں سیاست کا رنگ ڈھنگ ایک ہی جیسا ہے۔ یہاں زرداری اور نواز شریف تو وہاں حسینہ واجد، خالدہ ضیاء اور جنرل ارشاد۔ ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا۔
دوسری جانب بنگلہ دیش میں عوامی لیگ نے چیف الیکشن کمشنر نور الہدیٰ کے سگے بھانجے کو امیدوار نامزد کر دیا ہے۔ ان کی ہمشیرہ سکینہ خاتم کے جوانسال صاحبزادے شہزادہ سجو پتواکھالی کے حلقہ 3 سے انتخاب لڑیں گے۔ چیف الیکشن کمشنر صاحب نے اپنے بھانجے کے کاغذات نامزدگی پر تجویز کنندہ کی حیثیت سے دستخط کئے ہیں۔ یہ حلقہ بنیادی طور پر عوامی کے سینئر رہنما جہانگیر حسین صاحب کا ہے، جو عوامی لیگ کے طلبہ ونگ چھاترو لیگ کے مرکزی جنرل سیکریٹری اور حسینہ واجد کی کابینہ میں وزیر مملکت رہ چکے ہیں۔ وہ ایک عرصے سے اس نشست پر منتخب ہوتے چلے آئے ہیں، لیکن اس بار حسینہ واجد نے پارٹی ٹکٹ ایک نووارد بزنس مین کو جاری کردیا۔ شہزدہ سجو میں اس کے علاوہ اور کوئی خصوصیت نہیں کہ موصوف چیف الیکشن کمشنر کے بھانجے ہیں۔
ٹکٹ سے محرومی پر جہانگیر حسین صاحب نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑنے کا اعلان کیا، لیکن دوسرے باغیوں کو پس دیوار زندان جاتے دیکھ کر بغاوت ترک کرکے اسی تنخواہ پر راضی ہوگئے۔ خبر ہے کہ وہ شہزدہ سجو کے چیف پولنگ ایجنٹ ہوں گے۔ اسی کے ساتھ ماموں جان نے انتخابی عملے کی تعیناتی اور مقامی انتظامیہ میں ’’ضروری‘‘ تبدیلیاں شروع کر دی ہیں، اس نشست پر جاتیو ایکو فرنٹ کے متوقع امیدواروں کو ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ بھی جار ی ہے۔ تازہ ترین افواہ یہ ہے کہ دوسرے امیداروں کے راہِ فرار اختیار کرنے کی بنا پر فرنٹ یہ نشست جماعت اسلامی کو دینا چاہتا ہے۔ یہ خبر سن کر ہم نے انتخاب میں کامیابی سے بڑھ کر اس دلاور کی سلامتی کی دعا مانگنی شروع کردی ہے، جو جبر و تشدد کے اس تندور میں اترنے کی جسارت کررہا ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More