ابوالحسن خرقانی اور محمود غزنوی

0

سلطان محمودؒ نے اشرفیوں کی ایک تھیلی شیخ خرقانیؒ کے سامنے رکھ دی اور کہا کہ یہ نذر قبول فرمایئے۔ شیخ نے تعجب سے سلطان کی طرف دیکھا اور پھر اس کے سامنے جو کی ایک روٹی رکھ دی اور فرمایا کہ یہ تمہاری دعوت ہے۔ اس کو تناول کرو۔ سلطان نے خدا کا نام لے کر جو کی روٹی کھانا شروع کی، لیکن پہلا نوالہ ہی حلق میں اٹک گیا۔
شیخ نے فرمایا: شاید نوالہ حلق میں اٹک گیا؟
سلطان نے اثبات میں جواب دیا تو شیخ نے گھمبیر لہجے میں فرمایا: تو یہ اشرفیوں کی تھیلی بھی میرے حلق میں اٹک جائے گی۔ اس کو فوراً اٹھالو۔ یہ اشرفیاں بادشاہ کی خوراک ہیں، فقیر کے لئے جو کی روٹی ہی نعمت عظمیٰ ہے۔ سلطان محمود نے عرض کی کہ حضرت سب نہیں تو ان میں کچھ اشرفیاں ہی قبول فرمالیں۔ شیخ جلال میں آگئے اور فرمایا: میں دنیا کو طلاق دے چکا ہوں، میرے لئے یہ اشرفیاں حرام ہیں، اس لئے اپنی بات پر اصرار نہ کر، یاد رکھ ان اشرفیوں پر نہ تیررا حق ہے نہ میرا، ان کو قوم کی امانت سمجھ، اگر یہ قوم کی مرضی کے بغیر تقسیم کرے گا تو قوم کے مال میں خیانت کرے گا اور حق تعالیٰ کا گناہ گار بھی ہوگا، اگر تو ان اشرفیوں کو خیرات ہی کرنا چاہتا ہے تو تیرے ملک میں بہتیرے مساکین ہیں، جب تو سو جاتا ہے تو وہ اس لئے جاگتے ہیں کہ ان کے پیٹ خالی ہیں اور تیرے ملک میں ایسے شریف اور سفید پوش لوگ بھی موجود ہیں، جو بظاہر آسودہ حال نظر آتے ہیں، لیکن عسرت اور خود داری قائم رکھنے کے لئے کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے، جب قیامت کا دن آئے گا تو تیری قوم کے یہ لوگ تیرا گریبان پکڑ لیں گے کہ تو غیر مستحق لوگوں میں مال بانٹتا رہا اور ہم تیری نظروں سے اوجھل رہے، اس وقت تجھے ہر بات کا جواب دینا پڑے گا۔
شیخ کی باتیں سن کر سلطان لرزہ براندم ہو گیا اور اس کی آنکھوں سے سیل اشک رواں ہوگیا، پھر اس نے عرض کی کہ آپ مجھ سے کچھ قبول نہیں فرماتے تو مجھے ہی کوئی تبرک عنایت فرمایئے۔ شیخ نے فوراً اپنا پیراہن اتار کر سلطان کو عطا فرمایا، جب سلطان نے رخصت کی اجازت مانگی تو شیخ اس کی تعظیم کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ سلطان کو شیخ کے رویے پر بڑی حیرت ہوئی اور اس نے عرض کی کہ حضرت جب میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا تو آپ نے میری طرف التفات فرمانا بھی مناسب نہ سمجھا تھا، لیکن اب جو آپ اس طرح میری عزت افزائی کررہے ہیں، اس کا کیا سبب ہے؟ شیخ نے فرمایا: جب تم فقیر کے حجرے میں داخل ہوئے تھے تو تمہارے دل و دماغ میں بادشاہت کی بو تھی اور تم اپنے شاہانہ جاہ جلال کا مظاہرہ کرنا چاہتے تھے، اس لئے میں نے بادشاہ محمود کی پروا نہیں کی تھی، اب تم جا رہے ہو تو تمہارا رنگ اور ہے، اب تم ایک درویش اور منکسر المزاج انسان کی حیثیت سے رخصت ہو رہے ہو۔ اسی لئے میں نے اپنا فرض سمجھا ہے کہ تمہاری تعظیم کروں، ایسے انسانوں کی تعظیم نہ کرنا مسلمانوں کا شیوا نہیں ہے۔ (بحوالہ حکایات صوفیہ)
حاصل… بیشک بزرگوں کی شان ہی عجیب ہوتی ہے، دنیاوی طمع و لالچ ان سے کوسوں دور ہوتی ہے اور ایک مؤمن کی شان بھی یہی ہونی چاہئے کہ وہ دنیاوی لذتوں سے کنارہ کش ہو کر زندگی گزارے، خدا کرے اس واقعہ سے ہمیں بھی سبق حاصل ہو۔ آمین یا رب العالمین۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More