میں ایک بار پھر زیرو پر پہنچ گیا (آخری حصہ)

0

’’آپ جس سے شادی کرنا چاہتے تھے، یہ وہی ملئی لڑکی تھی؟‘‘ میں نے علی سے پوچھا۔
’’جی ہاں‘‘۔ علی نے جواب دیا۔ ’’جب ہم نے بزنس شروع کیا تو اس نے اپنے بارے میں بتایا کہ چند سال قبل اس کی شادی ہوئی تھی، لیکن پھر جلد ہی طلاق ہوگئی۔ اب وہ تنہا زندگی گزار رہی تھی۔ اس نے مجھے اپنے والدین سے بھی ملوایا جو شریف اور نیک لوگ تھے۔ وہ کوالالمپور سے دو سو کلو میٹر دور پینانگ جزیرے پر رہتے تھے، میں ان کے ہاں اکثر جاتا رہتا تھا۔ انہیں اپنی بیٹی کی طلاق کا بہت دکھ تھا اور وہ چاہتے تھے کہ اس کی شادی ہوجائے۔ وقت کے ساتھ انہوں نے مجھ میں دلچسپی ظاہر کی اور ایک دن اس سلسلے میں انہوں نے مجھ سے بات بھی کی۔ لڑکی عمر میں مجھ سے بڑی تھی، لیکن بزنس میں ساتھ رہنے کی وجہ سے ہمارے درمیان Understanding ہوچکی تھی۔ میرے دل میں بھی اس کیلئے دلچسپی پیدا ہونے لگی تھی۔ میں نے اس کے والدین کے سامنے رضامندی ظاہر کی اور وہ بہت خوش ہوئے۔ پھر انہوں نے اپنی بیٹی سے بات کی جو خود بھی مجھ میں دلچسپی لینے لگی تھی… یا شاید اس کے والدین نے اسے شادی کیلئے Convince کیا تھا، بہرحال اس نے بھی رضا مندی ظاہر کی۔ اب ہم نے خود کو مزید مالی طور پر مستحکم کرکے شادی کرنے کا ارادہ کیا‘‘۔
’’آپ کا سائبر کیفے والا بزنس کتنے سال چلا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’یہ تین سال تک جاری رہا اور ہم نے خوب کمایا۔ میرا ارادہ تھا کہ کرائے کی دکان کے بجائے اپنی دکان خریدی جائے یا یہی لے لی جائے‘‘۔ علی نے بتایا۔ ’’لیکن وہ میرے اس خیال سے متفق نہیں تھی۔ وہ دیگر عام ملئی لوگوں کی طرح بے حد شاہ خرچ طبیعت کی مالک تھی۔ کھانے پینے اور نت نئے لباس کی بہت شوقین تھی۔ لیکن اب اس کے سرپر اپنا فلیٹ لینے کی دھن سوار ہوگئی تھی۔ وہ ایک انتہائی مہنگے قسم کے تعمیر ہونے والے فلیٹوں میں سے ایک اپنے نام سے بک کروا کے آگئی۔ اس وقت تک میرے پاس چالیس ہزار رنگٹ جمع ہوچکے تھے جو آج کے حساب سے دس لاکھ روپے کے برابر تھے۔ اس نے مجھ سے میری بچت کی رقم بھی طلب کی اور یہ دلیل دی کہ آخر شادی کے بعد ہمیں ہی اس میں رہنا ہے۔ میں نے اسے اپنی ساری رقم دیدی‘‘۔
’’پھر شادی کا معاملہ کیسے بگڑا ؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’اس دوران میں ایسا ہوا کہ کیفے کا بزنس چلانے کے دنوں میں اس کی ایک سہیلی آکر یہاں رہنے لگی، اس کی بھی طلاق ہوچکی تھی۔ وہ دونوں ساتھ ساتھ رہنے لگیں۔ ہماری شادی کے بارے میں سن کر اس کی سہیلی کو خوشی ہونے کی بجائے بہت دکھ ہوا‘‘۔
’’کیوں…؟‘‘ میں نے علی سے پوچھا۔
’’ظاہری طور پر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسے یہ فکر لاحق ہوگئی تھی ہماری شادی ہونے کے بعد وہ تنہا رہ جائے گی یا اسے ملازمت چھوڑ کر واپس اپوح جانا پڑے گا۔ بہرحال اس نے میری بزنس پارٹنر کے کان بھرنا شروع کردیئے۔ رفتہ رفتہ وہ مجھ سے دور ہوتی چلی گئی۔ میرے سمجھانے کے باوجود وہ ہر معاملے میں من مانی کرنے لگی۔ اس کیلئے مجھ سے زیادہ اہم اس کی سہیلی ہوگئی تھی۔ آخر کار اس نے میرے ساتھ ایسی بے رخی اختیار کی کہ مجھے اس کے والدین کے سامنے اس خدشے کا اظہار کرنا پڑا کہ وہ شاید میرے ساتھ شادی کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ بعد میں میرا یہ خدشہ حقیقت ثابت ہوا۔ والدین کے سمجھانے کے باوجود وہ اپنی ضد پر قائم رہی۔ سچی بات یہ ہے کہ اس کی دلچسپی اپنی سہیلی میں اس قدر بڑھ گئی تھی، اس نے میرے ساتھ ہی والدین سے بھی کنارہ کرنا شروع کردیا تھا۔‘‘
’’انہی دنوں میں ہمارے سائبر کیفے میں کچھ نوجوان تامل گاہکوں کا آپس میں جھگڑا ہو گیا۔ فوراً پولیس پہنچ گئی اور انہوں نے کیفے بند کرادیا جو اس ملئی لڑکی کے نام تھا۔ ہمارا روزگار ختم ہوگیا… اور میری تمام جمع پونجی لڑکی کے حوالے ہوگئی تھی‘‘۔
’’آپ نے اس سے اپنی رقم کا تقاضا نہیں کیا؟‘‘
’’کیا تھا، لیکن اس نے بھی وہ رقم فلیٹ میں صرف کردی تھی اور فلیٹ اس کے نام تھا۔ اس سلسلے میں میری قانونی حیثیت کچھ نہیں تھی۔ میں ایک بار پھر زیرو پر پہنچ گیا۔ میری وہی حالت ہوگئی جو چار سال قبل تھی جب میں سنگاپور سے خالی ہاتھ کوالالمپور پہنچا تھا‘‘۔ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More