جمعہ کے روز دہشت گردوں کی دو گھنائونی وارداتوں نے اہل وطن کو سخت تشویش میں مبتلا کردیا۔ کراچی میں چین کے قونصلیٹ پر حملہ ہوا تو خیبرپختون کے علاقے اورکزئی میں بم دھماکہ۔ ضلع اورکزئی حال ہی میں صوبہ خیبر پختون میں ضم ہوا ہے۔ اورکزئی کی تحصیل کلایہ میں ایک ہفتہ وار میلے کو نشانہ بنایا گیا۔ اس دھماکے میں پچیس افراد جاں بحق اور تیس سے زائد زخمی ہوگئے۔ جس جگہ دھماکہ ہوا، وہاں اہل تشیع کی اکثریت بتائی جاتی ہے۔ دھماکہ خیز مواد ایک موٹر سائیکل پر نصب کیا گیا تھا۔ تاہم کراچی پولیس کے بہادر جوانوں نے جان پر کھیل کر چینی قونصلیٹ پر حملے کو ناکام بنا دیا۔ اس کارروائی میں سات افراد ہلاک ہوگئے۔ جن تین دہشت گرد، دو عام شہری اور دو پولیس اہلکار شامل ہیں۔ پولیس کے مطابق دہشت گرد جمعہ کی صبح ایک گاڑی میں چینی قونصل خانے تک پہنچے اور عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ خود کش جیکٹوں میں ملبوس حملہ آور دستی بموں کے دھماکے کرکے قونصل خانے کے احاطے میں داخل ہوگئے۔ تاہم سیکورٹی اہلکاروں نے بروقت کارروائی کر کے انہیں کمپاؤنڈ میں داخل ہونے سے پہلے ہی جہنم واصل کردیا۔ اس لئے چینی قونصل جنرل سمیت تمام عملہ محفوظ رہا۔ دوسری جانب علیحدگی پسند دہشت گرد تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے اس گھنائونی واردات کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ تنظیم کے ترجمان نے فون پر برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ ہمارے مجید بریگیڈ کے تین فدائین اس کارروائی میں شامل تھے اور یہ چین کے لیے ایک تنبیہ ہے کہ وہ ہماری زمین پر قبضے کی کوشش چھوڑ دے، ورنہ مستقبل میں اسے مزید سنگین معاملات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تنظیم نے حملہ آور دہشت گردوں کی تصاویر بھی جاری کی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے دونوں واقعات کی مذمت کر کے چینی قونصل خانے پر حملے کو پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے خلاف سازش قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک کے خلاف ہر کوشش کو ناکام بنایا جائے گا۔ ایسے واقعات پاکستان اور چین کے تعلقات کو کمزور نہیں کر سکتے۔ وزیر اعظم نے حملے کی مکمل تحقیقات کی ہدایت کرتے ہوئے اس کے پیچھے چھپے عناصر کو بے نقاب کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ گو کہ پولیس جوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے دوست ملک چین کے قونصل خانے پر حملے کو ناکام بنا دیا۔ خدا نخواستہ اگر یہ حملہ کامیاب ہو جاتا تو دنیا بھر میں وطن عزیز کی ساکھ مٹی میں مل جاتی۔ مگر کراچی کے پوش علاقے کلفٹن میں واقع اس عمارت تک مسلح دہشت گردوں کا بہ آسانی پہنچنا بھی سنجیدہ سوالات کو جنم دیتا ہے۔
بھارتی فنڈ سے چلنے والی بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں اول روز سے سی پیک منصوبے کے خلاف ہیں۔ اس سے قبل بلوچستان میں بھی وہ چینی عملے سمیت منصوبے میں کام کرنے والے مزدوروں کو نشانہ بناتی رہی ہیں۔ رواں برس کے آغاز میں پاکستان میں چین کے سفیر یاؤ ژینگ نے کہا تھا کہ بلوچستان میں متحرک مزاحمتی تحریک اب نہ ہی پاکستان، نہ چین اور نہ ہی سی پیک کے لیے کوئی خطرہ ہے اور پاکستان میں پہلے کی نسبت امن و امان کی صورت حال کافی بہتر ہوئی ہے۔ جبکہ پاکستائی زعما بھی بار ہا دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے دعوے کرتے رہے ہیں۔ مگر اس دہشت گرد تنظیم بی ایل اے نے خودکش حملہ کر کے ان دعوئوں کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔ خودکش دھماکے اکثر مذہبی ذہنیت کے کھاتے ڈالے جاتے ہیں۔ لیکن حالیہ حملے نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ برین واشنگ کے بعد کسی بھی نظریات کے حامل انسان کو خود کش بمبار بنایا جاسکتا ہے۔ عراق کی کرد عورتیں بھی خودکش حملے کرتی ہیں۔ حالانکہ ان کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس لئے ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ ان اسباب کا کھوج لگا کر انہیں دور کرنا ہوگا، جن کی بنیاد پر دشمن کو ہماری صفوں سے ایجنٹ بہ آسانی مل جاتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم اور بنیادی سبب بلوچستان کا احساس محرومی ہے۔ سابقہ حکومت نے بھی بلوچستان کو حقوق دینے کے بڑے دعوے کئے تھے۔ لیکن رواں ماہ ہی جاری ہونے والی سروے رپورٹ میں بلوچستان کو حسب سابق ملک کا سب سے پسماندہ اور غریب صوبہ قرار دیا گیا۔ حالانکہ وہاں وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے، بلکہ وہاں سے نکلنے والی قدرتی گیس سے سینکڑوں کلومیٹر دور شہر اور دیہات فیض یاب ہو رہے ہیں۔ مگر بلوچستان کے بیشتر علاقے اس نعمت سے محروم ہیں۔ جبکہ رائلٹی کی مد میں ملنے والی رقوم بھی سردار کھا جاتے ہیں۔ عوام کے حصے میں سوائے غربت و مفلسی اور محرومی کے کچھ نہیں آتا۔ حکومت کو چاہئے کہ یہ رقوم براہ راست عوامی فلاح و بہبود کے کاموں میں لگا دے۔ سی پیک کی وجہ سے گوادر کا نقشہ تبدیل ہو رہا ہے۔ مگر وہاں کے باسیوں کی حالت حسب سابق ابتر ہے۔ انہیں پینے کا پانی تک میسر نہیں۔ حکومت کو اس جانب فوری توجہ دینی ہوگی۔ دوسرا اہم سبب سی پیک کے خلاف دشمنوں کا اتحاد ہے۔ بھارت اور امریکہ بلکہ ایران سمیت تمام بعض ممالک کیلئے یہ منصوبہ آنکھوں کا کانٹا بنا ہوا ہے۔ وہ اسے ناکام بنانے کیلئے کسی حد بھی جا سکتے ہیں۔ بھارت نے اگرچہ چینی قونصلیٹ پر حملے کی زبانی مذمت کی ہے، مگر اس حملے کے ماسٹر مائنڈ اسلم اچھو کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ دہلی میں مقیم ہے۔ جبکہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نے تو سی پیک کو ناکام بنانے کیلئے ایک علیحدہ شعبہ قائم کر رکھا ہے۔ اب یہ ہماری دانش اور تدبیر کا سوال ہے کہ ہم ان سے کیسے نمٹیں۔ اس کیلئے ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہوگا۔ تیسرا سبب سی پیک منصوبے پر بلوچ قیادت کے تحفظات ہیں۔ سیاسی قیادت کو شکوا ہے کہ اہم فیصلوں میں انہیں اعتماد میں لینا تو دور کی بات، انہیں مطلع کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا گیا۔ حالانکہ اس منصوبے کا مرکز بلوچستان کا ساحلی شہر گوادر ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ حکومت ہر سطح پر ان کے خدشات و اعتراضات کو دور کرنے کا اہتمام کرے اور انہیں باور کرائے کہ منصوبے کی تکمیل کے بعد سب سے زیادہ فائدہ بلوچستان کو ہوگا۔ علاوہ ازیں اس منصوبے میں بلوچ نوجوانوں کو ترجیح نہ دینے سے بھی احساس محرومی بڑھ رہا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ بلوچ نوجوانوں کی تربیت کا انتظام کرے اور انہیں زیادہ سے زیادہ سی پیک کا حصہ بنایا جائے۔ بلوچ محب وطن لوگ ہیں۔ اگر ان اسباب و عوامل کا خاتمہ کر دیا جائے تو دشمن کو انہیں اپنا آلہ کار بنانے کا موقع ہی نہیں ملے گا، بلکہ وہ خود ہی اس سے نمٹ لیں گے۔ ٭
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post