معارف القرآن

0

معارف و مسائل
تخلیق انسانی کے معاملے میں انسان کی غفلت اور اسباب طبعیہ کے پردے میں الجھ کر اصل خالق و مالک سے بے خبر ہونے کا پردہ چاک کرنے کے بعد اس کی غذا جو اس کی زندگی کا مدار ہے، اس کی حقیقت اسی انداز سے ظاہر فرمائی کہ سوال کیا کہ تم جو کچھ زمین میں بیج بوتے ہو، ذرا غور تو کرو کہ اس بیج میں سے درخت پیدا کرنے میں تمہارے عمل کا کیا اور کتنا دخل ہے، غور کرو گے تو جواب اس کے سوا نہ ملے گا کہ کاشتکار کا دخل اس میں اس سے زیادہ نہیں کہ اس نے زمین کو ہل چلا کر پھر کھاد ڈال کر نرم کردیا کہ جو ضعیف کونپل اس دانہ سے پیدا ہو کر اوپر آنا چاہے، اس کی راہ میں زمین کی سختی رکاوٹ نہ بنے، بیج بونے والے انسان کی ساری کوشش اسی ایک نقطہ کے گرد دائر ہے اور جب درخت نمودار ہو جائے تو اس کی حفاظت پر یہ کوشش لگ جاتی ہے، لیکن ایک دانے کے اندر سے درخت نکال لانا نہ اس کے بس کا ہے، نہ یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ میں نے یہ درخت بنایا ہے، تو پھر وہی سوال آتا ہے کہ منوں مٹی کے چھیر میں پڑے ہوئے دانے کے اندر سے یہ خوبصورت اور ہزاروں فوائد پر مشتمل درخت کس نے بنایا؟ تو جواب اس کے سوا کیا ہے کہ وہی مالک و خالق کائنات کی قدرت کاملہ اور صنعت عجیبہ اس کی بنانے والی ہے۔
اس کے بعد اسی طرح پانی جس کو پی کر انسان زندہ رہتا ہے، آگ جس پر اپنا کھانا پکاتا ہے اور اپنی صنعتوں کو اس سے چلاتا ہے، ان سب کی تخلیق پر ایسے ہی سوال و جواب کا ذکر فرمایا اور آخر میں سب کا خلاصہ یہ بیان فرمایا:
نَحْنُ جَعَلنٰھَا …مقوین، اقواء سے مشتق ہے اور وہ قواء بمعنی صحرا سے مشتق ہے، مقوی کے معنے ہوئے صحرا میں اترنے والا، مراد اس سے مسافر ہے جو جنگل میں کہیں ٹھہر کر اپنے کھانے کے انتظام میں لگا ہو اور مراد آیت کی یہ ہے کہ یہ سب تحقیقات ہماری ہی قدرت و حکمت کا نتیجہ ہیں۔
فَسَبِّحْ … اس کا لازمی اور عقلی نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ انسان حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور توحید پر ایمان لائے اور اپنے رب عظیم کے نام کی تسبیح پڑھا کرے کہ یہی اس کی نعمتوں کا شکر ہے۔(جاری ہے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More