بندے کا رب سے دلچسپ مکالمہ

0

جناب رسول کریمؐ کے مزاج مبارک کے بارے میں متعدد احادیث مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے کہ آپؐ انتہائی شگفتہ مزاج تھے اور نرمی و محبت سے اور مسکرا کر بات کیا کرتے تھے۔ تاہم کئی بار آپؐ بے اختیار ہنس بھی دیتے، مگر یہ اس وقت ہوتا جب آپؐ آخرت کے حالات بیان فرما رہے ہوتے تھے۔ امام عسقلانیؒ فرماتے ہیں ’’یہ کہا گیا ہے کہ آپؐ صرف آخرت کے امور میں ہنسا کرتے تھے۔ اگر کوئی معاملہ دنیا سے متعلق ہوتا تو اس پر آپؐ صرف تبسم فرمایا کرتے تھے۔‘‘
آپؐ نے ایک بار صحابہ کرامؓ کو یہ آگاہ کیا کہ روز محشر جب کسی کو جہنم سے نکال کر جنت میں بھیجا جائے گا تو اس کی حالت کیا ہوگی۔ اس پر آپؐ نے ہنس کر واقعہ کا احوال بیان کیا۔ بخاری شریف اور مسلم شریف میں یہ متفق علیہ حدیث مبارک یوں بیان کی گئی ہے۔
حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا ’’مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ سب سے آخر میں جہنم سے کون نکالا جائے گا یا سب سے آخر میں کون جنت کے اندر داخل ہو گا۔ یہ آدمی اپنے جسم کو گھسیٹتا ہوا جہنم سے باہر نکلے گا۔ چنانچہ حق تعالیٰ اس سے فرمائے گا ’’جا، جنت میں داخل ہو جا‘‘
وہ جنت میں داخل ہو گا تو اسے گمان گزرے گا کہ شاید یہ بھری ہوئی ہے، چنانچہ وہ واپس لوٹ کر عرض گزار ہو گا ’’اے ربّ! وہ تو بھری ہوئی ہے۔‘‘ پس حق تعالیٰ اس سے فرمائے گا ’’جا، جنت میں چلا جا‘‘
لہٰذا وہ جنت میں داخل ہو گا۔ جنت میں جا کر اسے پھر گمان گزرے گا کہ شاید یہ بھری ہوئی ہے۔ پس وہ واپس لوٹ کر پھر عرض کرے گا ’’اے ربّ! میں نے تو وہ بھری ہوئی پائی ہے۔‘‘
چنانچہ حق تعالیٰ اس سے فرمائے گا ’’جا اور جنت میں داخل ہو، کیونکہ تیرے لیے جنت میں دنیا کے برابر بلکہ اس سے دس گنا زیادہ حصہ ہے یا فرمایا: تیرے لیے دس دنیائوں کے برابر حصہ ہے۔‘‘
وہ عرض کرے گا’’ (اے رب!) کیا تو مجھ سے مزاح کرتا ہے یا مجھ پر ہنستا ہے؟ حالانکہ تو حقیقی مالک ہے۔‘‘
حضرت ابن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ اِس پر حضور نبی اکرمؐ ہنس پڑے، یہاں تک کہ آپؐ کے دندانِ مبارک نظر آنے لگے۔
آپؐ فرماتے تھے ’’یہ اہلِ جنت کے سب سے کم درجہ والے شخص کا حال ہے۔‘‘
مولانا رومؒ اور تاتاری:
اولیائے کرامؒ کو کبھی کوئی آفت پریشان نہیں کرتی، تاوقتیکہ خدا کا حکم نہ ہو، تاریخ ایسے بے شمار واقعات کی شاہد ہے کہ اولیاء کی جان لینے کے درپے دشمن خود مصیبتوں کا شکار ہو جاتے اور ان کی عقلیں خبط ہو جایا کرتی تھیں۔ جب ہلاکو خان قہر بن کر بغداد اور تبریز تک پہنچا تو اس کے ایک سپہ سالار نے مولانا رومؒ کے شہر قونیہ پر بھی یلغار کرنا چاہی، مگر مولانا رومؒ کی جلالت نے اس کے سپاہیوں کو بے خود کردیا تھا۔ یہ ولی کامل کی شان ہے کہ زہر تلوار آگ اور تیر بھی اس پر اثر نہیں کر سکتی۔
تیرہویں صدی میں ہلاکو خاں کے سپہ سالار بیجو خاں نے قونیہ پر حملہ کیا اور اپنی فوجیں شہر کے چاروں طرف پھیلا دیں تو اہل شہر تنگ آکر مولانا رومؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ اس قہر کو شہر برباد ہونے سے روک دیں۔ آپؒ نے ایک ٹیلے پر جو بیجو خاں کے خیمہ گاہ کے سامنے تھا جا کر مصلیٰ بچھا دیا اور نماز پڑھنی شروع کر دی۔
بیجو خاں کے سپاہیوں نے جب آپؒ کو دیکھا تو تیر چلا کر آپؒ کو شہید کرنا چاہا۔ مگر کمانیں کھینچ نہ سکیں۔ آخر گھوڑے بڑھائے تاکہ تلوار سے قتل کردیں، لیکن گھوڑے بھی اپنی جگہ سے ہل نہ سکے۔ تمام شہر میں غل غپاڑہ پڑگیا۔
سپاہیوں نے بیجو خاں سے جا کر یہ واقعہ بیان کیا۔ اس پر اس نے خیمہ سے نکل کر خود مولانا رومؒ پر کئی تیر چلائے، مگر ایک بھی مولانا رومؒ کو جا کر نہ لگا۔ جھلا کر گھوڑے سے اتر پڑا اور مولانا کی طرف چلا لیکن پاؤں نہ اٹھ سکے۔ آخر محاصرہ چھوڑ کر چلا گیا اور شہر قونیہ ایک ولی کی برکت و فیض سے قیامت صغریٰ سے بچ گیا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More