تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے ابتدائی سو دنوں میں قوم کے لئے مہنگائی اور نت نئے وعدوں کے سوا کچھ نہیں کیا۔ ملک بھر میں بدامنی، مہنگائی اور بے روزگاری کا سیلاب حسب معمول، بلکہ کچھ زیادہ ہی شدت کے ساتھ جاری ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے نزدیک ترجیحات کا تعین ہے نہ بنیادی عوامی مسائل کو حل کرنے کی جانب کوئی پیش قدمی۔ انہوں نے اپنی اولین ترجیح کے طور پر لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کا فوری اقدام کیا ہوتا تو ان کے وزیر خزانہ اسد عمر کو آئی ایم ایف سے کڑی شرائط پر قرضے کے لئے بھیک مانگنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ اس کے برعکس چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار ایک طرف مختلف حکومتی اداروں کو راہ راست پر لانے کے لئے کوشاں ہیں تو دوسری جانب وطن عزیز کو درپیش پانی کے سنگین بحران سے بچانے کے لئے ڈیموں کی تعمیر کی خاطر اندرون و بیرون ملک پاکستانیوں سے رقوم اکٹھی کرنے میں مصروف ہیں۔ بقول بلاول بھٹو زراری یہ کام چیف جسٹس کے کرنے کے نہیں، لیکن ایوب خان کے دور سے پیپلز پارٹی نے اپنے کسی دور اقتدار میں عوام کا کوئی مسئلہ حل نہیں کیا اور چیف جسٹس آف پاکستان، اگر قحط سالی اور آئندہ نسلوں کو تباہی سے بچانے کے لئے یہ اقدام کریں تو ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے کو تنقید کے بجائے ان کی حمایت اور معاونت کرنی چاہئے۔ سمندر کے پانی کو میٹھا کر کے لیاری کے لوگوں تک پہنچانے کی بچگانہ باتوں سے مایوس ہو کر ہی لیاری کے باشندوں نے بلاول کو گزشتہ انتخابات میں شکست سے دوچار کیا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے مانچسٹر میں دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لئے رقم اکٹھا کرنے کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ انہیں کچھ بڑے لوگوں سے توقع تھی، لیکن انہوں نے ڈیم فنڈ میں خاطر خواہ حصہ نہیں لیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اربوں روپے لوٹ کر باہر جائیدادیں بنانے والوں سے حساب لیں گے، جس کے بعد ڈیم کے لئے ہمیں مزید چندے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ڈیم فنڈ کی مہم شروع کی تو انہیں شاید اندازہ نہیں تھا کہ اس کام کے لئے اربوں روپے نہیں، بلکہ اربوں ڈالرز درکار ہیں۔ ان کی لٹیروں سے عوام کی فلاح کے لئے چندے کی توقع بھی غلط ثابت ہوئی۔ ملک کے اعلیٰ ترین منصف کی حیثیت سے انہیں ڈیم بنانے کا اعلان کرتے ہی قومی دولت کے لٹیروں سے رقوم کی واپسی کے جلد از جلد اقدامات اور فیصلے کرنے کی ضرورت تھی۔ سیاسی حکومتیں اپنے ہم پیالہ و ہم نوالہ سیاستدانوں کو بچانے کے لئے ٹال مٹول اور تاخیری حربوں سے کام لیتی ہیں۔ لہٰذا ہنگامی صورت حال کے پیش نظر صدر مملکت اور فوجی قیادت کو اعتماد میں لے کر ملک کے وسیع تر مفاد میں سخت فیصلوں کی ضرورت تھی۔ بڑے لٹیرے تاحال لوٹی ہوئی دولت پر سانپ کی طرح قابض ہیں اور وطن عزیز کے پاس سابقہ قرضوں کی قسطیں اور سود کی رقم ادا کرنے کے لئے بارہ ارب ڈالر بھی نہیں ہیں۔ چند بڑے سیاستدانوں، ان کے شراکت داروں اور نوکر شاہی کے اعلیٰ کل پرزوں میں سے کسی ایک کا بھی پیٹ پھاڑیں تو اس سے زیادہ رقم برآمد ہو سکتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنی حکومت کے ابتدائی سو دنوں میں اس جانب معمولی پیش قدمی بھی نہیں دکھائی تو ان سے آئندہ کیا توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں۔ لہٰذا گھوم پھر کر امید بھری نظریں اعلیٰ عدلیہ اور فوجی قیادت ہی کی جانب اٹھتی ہیں کہ شاید وہی عوام کے دکھوں کا مداوا کر سکیں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے گزشتہ دنوں یہ بھی کہا تھا کہ ملک کو ایک دو ڈیم نہیں بیسیوں چھوٹے بڑے ڈیموں کی ضرورت ہے۔ ان میں سے کچھ دریائے سندھ کے راستے میں کئی مقامات پر بنائے جا سکتے ہیں۔ اس پر سندھ کے قوم پرست سیاستدانوں نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم دریائے سندھ کا پانی روکنے کی کسی کو اجازت نہیں دیں گے۔ ملک کے دوسرے بڑے صوبے کے سیاستدانوں کا یہ ردعمل وفاقی حکومت اور بڑے صوبے کے سیاستدانوں پر عدم اعتماد کا مظہر ہے۔ کالا باغ ڈیم منصوے پر عمل درآمد میں بھی یہی عدم اعتماد سب سے بڑی رکاوٹ بنتا رہا۔ اعتماد کے اسی فقدان کی وجہ سے پاکستان کے کئی ترقیاتی منصوبے شروع ہونے سے پہلے ہی اپنی موت آپ مر جاتے ہیں۔ اس اہم ترین مسئلے پر قابو پائے بغیر ملک آئندہ بھی پستی و زبوں حالی کا شکار رہے گا اور یہ کام بھی عدلیہ اور فوج کے اشتراک ہی سے ممکن ہے۔ عوام کو سہولتیں ملنے لگیں تو وہ سیاستدانوں سے خود ہی نمٹ لیں گے۔
ایران سے ایک اچھی خبر
ایران سے ایک مدت کے بعد نہایت خوش کن خبر آئی ہے کہ صدر حسن روحانی کے مطابق ان کا ملک اسلام و مسلم دشمن طاقتوں اور عالمی دہشت گردوں کے مدمقابل سعودی عرب کا دفاع کرنے کے لئے تیار ہے۔ ایرانی صدر حسن روحانی کا یہ بیان نہایت ایمان افروز ہے کہ مکہ اور مدینہ میں رہنے والے ہمارے بھائی ہیں۔ تہران میں سالانہ اسلامی یکجہتی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اسرائیل کو خطے میں کینسر سے تعبیر کیا اور کہا کہ یہ ایک جعلی حکومت ہے، جسے مغربی ممالک نے قائم کیا ہے۔ انہوں نے مسلم دنیا سے اپیل کی کہ وہ امریکا کے خلاف اتحاد کا مظاہرہ کرے جو اسرائیل کے تحفظ و سلامتی کا ضامن ہے۔ یاد رہے کہ سعودی عرب نے تین سال پہلے تہران میں اپنے سفارت خانے پر مظاہرین کے حملے کی وجہ سے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کر دیئے تھے۔ یوں بھی دونوں ممالک کے درمیان اکثر کشیدگی دیکھنے میں آتی رہی ہے۔ جس کا بنیادی سبب مسلکی اختلافات ہیں۔ اب جبکہ ایرانی صدر نے مسلمانوں کے درمیان ہم آہنگی اور یک جہتی کی ضرورت ظاہر کر کے سعودی شہریوں کو بھائیوں کی طرح تسلیم کرتے ہوئے اور باطل کے خلاف سعودی عرب کے دفاع کا عزم ظاہر کیا ہے تو یہ بڑی خوش آئند پیش رفت ہے۔ اس پر سعودی حکمرانوں کو بھی فوراً مثبت ردعمل ظاہر کرنا چاہئے۔ جو دونوں ملکوں کے علاوہ مسلمانان عالم کے لئے بھی اچھا پیغام ثابت ہو گا۔ ٭
Prev Post