سرفروش

0

عباس ثاقب
میرے چہرے پر آنے والی طنزیہ مسکراہٹ نے یقیناً اس کا دل جلا کر رکھ دیا ہوگا۔ اس نے بھنائے ہوئے لہجے میں کہا۔ ’’اوئے بے غیرتا، آگے سے دانت نکالتا ہے، کوئی شرم ، کوئی حیا نہیں ہے تیرے اندر؟‘‘۔
مجھے بہت کرارا سا جوابی جملہ سوجھا تھا، لیکن مجھے یہ اندیشہ ستارہا تھا کہ کسی بھی وقت کوئی بھولا بھٹکا راہگیر اس طرف آکر رنگ میں بھنگ ڈال سکتا ہے۔ لہٰذا میں نے کہا۔ ’’پہلے نیچے اترو الکھ سنگھ جی اور آگے لگو۔ باقی غصہ پھر اتار لینا۔ مجھے پتا ہے تم خود کتنے نمک حلال ہو‘‘۔
مجھے بولنے کے بعد احساس ہوا کہ یہ آخری الفاظ قبل از وقت تھے، لیکن تیر کمان سے چھوٹ چکا تھا۔ الکھ سنگھ جیسے مکار شخص کو چونکانے کے لیے یہ سب بہت کافی تھا۔ میں نے اسے بری طرح چونکتے دیکھا۔ اس نے ذہنی جھٹکے سے سنبھلتے ہوئے سنسناتی سی آواز میں سوال کیا۔ ’’اوئے یہ کیا بک رہا ہے تُو؟ میں کیسے نمک حرام ہوگیا؟ تیری اس بات کا کیا مطلب ہوا؟ کھل کے بات کر!‘‘۔
اب واقعی کھل کر بات کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ ویسے بھی کچھ دیر بعد تو بات کھلنا ہی تھی۔ میں نے ریوالور کی نال کا رخ عین اس کے سینے کی طرف کرتے ہوئے کہا۔ ’’پہلے تم نیچے اترو اور گھوڑے کی لگام پکڑ کر ان درختوں کے درمیان چلو پھپھڑ جی۔ میں جیپ لے کر تمہارے پیچھے آرہا ہوں۔ کوئی چالاکی دکھانے کی کوشش نہ کرنا، ورنہ میں بے جھجک تمہاری کھوپڑی میں گولی اتار دوں گا‘‘۔
قدرے ہچکچاہٹ کے بعد وہ گھوڑے سے اتر آیا اور لگام پکڑ کر راستے کے دوسری طرف موجود درختوں کے اس جھنڈ کی طرف بڑھا، جس کی طرف میں نے ریوالور کی نال سے اشارہ کیا تھا۔ اس دوران میں نے جیپ کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر انجن اسٹارٹ کر دیا تھا اور دھیمی رفتار سے اس کے پیچھے چل رہا تھا۔ وہ درختوں کے درمیان پہنچا تو میں نے چیخ کر کہا۔ ’’گھوڑے کو چھوڑ دو اور اپنا منہ میری طرف کرکے کھڑے ہوجاؤ۔ یہ مت بھولنا تم مسلسل میرے نشانے پر ہو!‘‘۔
میری دھمکی ابھی بمشکل پوری ہوئی تھی کہ الکھ سنگھ بجلی کی تیزی سے مڑا۔ مجھے اس کے دائیں ہاتھ میں ایک پستول کی جھلک دکھائی دی۔ اس سے پہلے کہ میں کوئی ردِ عمل ظاہر کرتا، فضا میں زور دار دھماکا گونجا اور جیپ کی ڈرائیونگ سائیڈ والی ونڈ شیلڈ کے اوپری حصے میں ایک سوراخ بن گیا۔ گولی شاید میرے سر سے چند انچ اوپر سے گزری تھی۔ یہ سب اتنا اچانک اور غیر متوقع تھا کہ لمحہ بھرکے لیے میرے اعصاب سُن ہوگئے۔ کانوں میں بجتی سیٹیوں کے ساتھ میرا پاؤں بے اختیار بریک پر جم گیا۔ جیپ ایک جھٹکے سے رکی اور انجن بند ہوگیا۔
یہ مہلت الکھ سنگھ کے لیے بہت کافی تھی کہ وہ تاک کر نشانہ لے اور دوسری گولی چلاکر میرا کام تمام کر دے۔ لیکن میری خوش قسمتی کہ وہ خود میری گولی کا نشانہ بننے کے خوف میں گرفتار تھا۔ چنانچہ اندھا دھند پہلی گولی چلانے کے بعد وہ نیم کے ایک بڑے سے درخت کے تنے کے پیچھے جا چھپا۔ خود کو میری گولی سے محفوظ کرنے کے بعد اس نے ایک بار پھر مجھ پر فائر کیا۔ لیکن میں اس مہلت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نیچے جھک چکا تھا۔
اس گولی نے میری طرف والی ونڈ شیلڈ کے درمیانی حصے کو نشانہ بناکر اسے بالکل چکنا چور کر دیا تھا۔ کانچ کے ٹکڑے میری پیٹھ اور گردن پر گرے، لیکن میں دبکے رہنے کے سوا کر بھی کیا سکتا تھا۔ میری ذرا سی حماقت کی وجہ سے میرے ساتھ امر دیپ کی زندگی کو بھی شدید خطرہ لاحق ہوگیا تھا۔ مجھے پہلے الکھ سنگھ کے نہتے ہونے کی تصدیق کرنا چاہیے تھی۔
میرا ذہن تیزی سے سوچ رہا تھا۔ الکھ سنگھ میرے مقابلے میں ہر طرح سے بہتر پوزیشن میں ہے۔ وہ نہ صرف درخت کی اوٹ میں ہونے کی وجہ سے میرا نشانہ بننے سے محفوظ ہے، بلکہ میرے جسم کا کوئی بھی حصہ نظر آنے پر باآسانی، تاک کر گولی مار سکتا ہے۔ یہی نہیں، موقع پاکر وہ درختوں کے درمیان دس بیس گز آگے بڑھنے کے بعد قدرے باہر کی طرف آجائے تو ایسے زاویے پر پہنچ جائے گا، جہاں سے وہ کسی درخت کی آڑ میں رہتے ہوئے مجھے باآسانی بنا سکتا ہے۔
الکھ سنگھ نے تیسرا فائر نہیں کیا۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا اور میرے ذہن میں بجتے خطرے کے الارم کی آواز تیز سے تیز تر ہوتی جارہی تھی۔ اچانک میں نے امر دیپ کی آواز سنی۔ وہ عجلت بھرے لہجے میں کہہ رہا تھا۔ ’’بہادر بھائی، جلدی سے بندوق مجھے دو‘‘۔
میں نے بغیر سوچے سمجھے دونوں سیٹوں کے درمیان سے ہاتھ بڑھا کر ریوالور جیپ کے عقبی حصے میں چھپے اپنے ساتھی کی طرف بڑھا دیا۔ اس افراتفری میں امر دیپ کو تو میں بھول ہی بیٹھا تھا۔ مجھے اب ادراک ہوا کہ الکھ سنگھ کا سامنا کرنے کے لیے وہ مجھ سے بہتر اور محفوظ پوزیشن میں ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ دشمن امر دیپ کی موجودگی سے لاعلم ہے۔
کچھ دیر تک مکمل سناٹا چھایا رہا۔ پھر اچانک گولی کا دھماکا سنائی دیا۔ یہ فائر الکھ سنگھ نے کیا تھا اور میرے اندیشے کے مطابق اس نے پہلو سے مجھے نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی۔ میرے لیے یقین سے کچھ کہنا ممکن نہیں وہ گولی کہاں گئی تھی۔ لیکن اس کے دھماکے کی گونج ابھی پوری ماند نہیں پڑی تھی کہ میری پشت کے قریب ایک اور فائر ہوا۔ دھماکا اتنا شدید تھا کہ مجھے کانوں کے پردے پھٹتے محسوس ہوئے۔ لیکن گونجتی سیٹیوں کے شدت اختیار کرنے سے پہلے ہی میں نے ایک بلند آہنگ چیخ سن لی تھی۔ میرے لیے سمجھنا مشکل نہ تھا کہ یہ چیخ الکھ سنگھ کے حلق سے برآمد ہوئی، جس میں نمایاں شدید کرب سے واضح تھا کہ گولی نے نشانہ بننے والے کے جسم کے کسی اہم حصے کو نشانہ بنایا ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More