حضرت ابو بکر صدیقؓ نے مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد مجمع عام میں سب سے پہلی تقریر پر جو فرمائی، وہ اپنی سادگی، اثر اندازی اور جامعیت میں بے مثال تھی، اس سے یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ ایک حاکم کی حکومت کی پالیسی کیا ہونی چاہئے۔ آپؓ نے فرمایا:
’’ اے لوگو! بخدا، میں نے کبھی خفیہ یا اعلانیہ حکومت کی تمنا نہیں کی، میں تم پر حاکم بنایا گیا ہوں، درآں حالیکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں، اب تمہارا فرض یہ ہوگا کہ اگر میں اچھا کام کروں تو میری اطاعت کرو، لیکن اگر میں ٹیڑھا ہوجاؤں تو مجھے سیدھا کرو یاد رکھو! سچائی امانت ہے اور جھوٹ بددیانتی ہے، تم میں سے کمزور ترین آدمی بھی میرے نزدیک طاقتور ہے، جب تک کہ میں اس کا حق اسے نہ دلوا دوں اور تم میں سے قوی ترین شخص بھی میرے نزدیک کمزور ہے، جب تک کہ میں اس سے دوسروں کا حق حاصل نہ کر لوں، یاد رکھو! جو قوم خدا کی راہ میں جہاد کرنا چھوڑ دیتی ہے خدا تعالیٰ اسے ذلیل و خوار کر دیتے ہیں اور جس قوم میں بد کاری پھیل جاتی ہے، خدا اسے کسی مصیبت میں گرفتار کر دیتا ہے۔‘‘ (سچی اسلامی کہانیاں ص 10)
بیت الخلاء میں مرنے والا بدنصیب
پچیس سالہ نوجوان چند برسوں سے سگریٹ کا عادی ہو چکا تھا … ایک دن اچانک اسے دل کا دورہ پڑا اور علاج کیلئے اسپتال داخل کرا دیا گیا۔ چند دنوں تک جدید طبی الیکٹرانک مشینوں کے ذریعے اس کے مرض کی تشخیص اور علاج ہوتا رہا… نوجوان کے علاج پر مامور ڈاکٹر نے اس کیلئے یہ نسخہ تجویز کیا کہ وہ بیڑی سگریٹ کا استعمال ترک کر دے، کیونکہ اس کی بیماری کا اصل سبب سگریٹ نوشی ہی ہے۔
نیز ڈاکٹر نے نوجوان کے اہل خانہ کو تنبیہ کی کہ اس مریض کی عیادت کیلئے آنے والے لوگوں پر کڑی نگرانی رکھی جائے تاکہ وہ چپکے سے اسے بیڑی سگریٹ مہیا نہ کردیں۔ نوجوان کی صحت رفتہ رفتہ اچھی ہونے لگی اور اس کی جسمانی چستی و نشاط بحال ہوگئی۔
لیکن وہ ڈاکٹر کی ہدایات کی مسلسل پابندی کرنے کے بجائے صحت بحال ہوتے ہی پھر سگریٹ نوشی کرنے لگا اور اس کا دوبارہ عادی بن گیا۔ ایک دن یہ نوجوان گھر سے اچانک غائب ہوگیا۔ گھر والوں نے اسے ڈھونڈا تو وہ بیت الخلاء کے اندر دم توڑ چکا تھا اور اس کے ہاتھ میں سگریٹ جل رہی تھی۔ (گناہوں کا انجام)
Prev Post