ظلم اور ناانصافی کا معاشرہ

0

’’امت‘‘ کے یہ صفحات گواہ ہیں کہ ہم نے ملک میں دہشت گردوں، قاتلوں، قبضہ گروپوں، پانی مافیا کے کارندوں، قومی دولت کے لٹیروں اور تمام جرائم پیشہ عناصر کے خلاف فوج اور اعلیٰ عدلیہ کے اقدامات کو ہمیشہ سراہا۔ بالخصوص سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے حکومتی اداروں اور ہر شعبہ زندگی میں بدعنوانیوں اور خرابیوں کا نوٹس لیا اور ہر جگہ خود پہنچ کر اصلاح احوال کی جو کوششیں کیں، اس پر وہ عوام کی جانب سے بھی داد و تحسین کے مستحق قرار پائے، لیکن چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کوئی اعلیٰ و برتر مخلوق نہیں۔ وہ بھی ہم سب کی طرح گوشت پوست کے ایک انسان اور پاکستان کے محب وطن شہری ہیں، لہٰذا بشری خامیوں سے مبریٰ نہیں ہو سکتے۔ ان کے فیصلوں اور اقدامات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، لیکن ان کی حب الوطنی، انصاف پسندی اور عوام دوستی پر معمولی شک و شبہے کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ علامہ اقبالؒ کی زبان میں ’’خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے‘‘ کے تحت آج کی نشست میں نہایت ادب و احترام کے ساتھ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی خدمت میں چند معروضات پیش کی جا رہی ہیں۔ اپنے منصب کے لحاظ سے محترم چیف جسٹس کو سب سے پہلے ملک کے عدالتی نظام اور عدالتوں میں انصاف کی فراہمی پر توجہ دینی چاہئے۔ ماتحت عدالتوں میں بدعنوانی اور بدانتظامی کی صورت حال ان سے پوشیدہ نہیں ہوگی، جس میں پولیس کا کردار اہم ترین ہونے کے علاوہ سب سے زیادہ مکروہ بھی ہے۔ مجرموں کو شریف اور شریفوں کو مجرم ثابت کرنے کے لیے مقدمات کے آغاز ہی سے محکمہ پولیس کا رویہ عام شہریوں کے لیے سوہان روح بنا رہتا ہے۔ عدالتوں میں مقدمات کی بھرمار اور ججوں کی کمی کا شکوا اپنی جگہ حق بجانب ہے، لیکن صوبہ سندھ میں ایسے ججوں کی تعداد کچھ کم نہیں، جو مناسب جگہ پر اپنی تعیناتی (پوسٹنگ) کے منتظر ہیں۔ انہیں قومی خزانے سے گھر بیٹھے پابندی سے تنخواہیں اور دیگر مراعات ضرور ملتی ہیں، لیکن ان کی عدم تعیناتی کے باعث ان سے عوام کو ذرہ برابر بھی فائدہ نہیں پہنچتا۔ تمام عالمی و مقامی جائزوں کے مطابق پاکستان میں کرپشن سب سے زیادہ عدالتی نظام میں پائی جاتی ہے، جو سیشن کورٹس سے نیچے انتہا پر پہنچی ہوئی ہے اور جس کا مشاہدہ و تجربہ عام شہری روزانہ کرتا ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے قبضہ مافیا اور ٹینکر مافیا کے خلاف نیز اسپتالوں، دوا ساز کمپنیوں، صحت و صفائی اور تعلیم کے مختلف اداروں میں پہنچ کر اصلاح احوال کے احکامات جاری کئے، لیکن اس کے بعد پلٹ کر کسی نے نہ پوچھا کہ کہاں کہاں اور کتنی بہتری آئی ہے۔ مثال کے طور پر کافی عرصے قبل فاضل چیف جسٹس نے کراچی میں جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر دیکھ کر حکم جاری کیا تھا کہ ایک مقررہ مدت (پندرہ دن یا ایک ماہ) کے بعد کراچی بالکل صاف ستھرا شہر نظر آنا چاہئے، لیکن آج تک غریب تو کیا، پوش بستیوں میں بھی گندگی کا وہی حال ہے۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے پاکستان میں پانی کی شدید قلت اور قحط سالی کے پیش نظر ڈیموں کی تعمیر کا جو بیڑا اٹھایا ہے، وہ بلاشبہ نہایت قابل تحسین ہے۔ اگر وہ اس جانب خود متوجہ ہو کر قوم کی توجہ بھی مبذول نہ کراتے تو آئندہ چند برسوں میں وطن عزیز بے آب و گیاہ صحرا میں تبدیل ہو جاتا۔ تاہم اس جانب پیش قدمی سے قبل انہوں نے غالباً محب وطن معاشی ماہرین اور ڈیموں کے بارے میں مہارت کے حامل تیکنیکی افراد سے ضروری مشاورت نہیں کی، چنانچہ ڈیمز کے لیے فنڈز کی فراہمی میں اندرون و بیرون ملک انہیں شدید مشکلات کا سامنا ہے اور انہیں کہنا پڑا کہ ماہرین انہیں بتائیں چندے کے بغیر ڈیم کیسے بنائے جا سکتے ہیں۔ اہل وطن کو یاد ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اقتدار سنبھالتے ہی بیرونی قرضوں کا بوجھ کم کرنے کے لیے خاص طور پر دوسرے ممالک میں کام کرنے والے پاکستانی باشندوں سے رقوم فراہم کرنے کی اپیل کی تھی، جس پر بہت کم ردعمل سامنے آیا۔ بیرون ملک پاکستانیوں کا مؤقف یہ ہے کہ وہ گھر سے دور رہ کر اپنے اہل و عیال کے لیے جو محنت و مشقت کرتے ہیں، ان کی اس کمائی سے چندہ مانگنا حکومت کی زیادتی ہے۔ چند سو پاکستانی سیاست دانوں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی فہرست بنا کر ان سے لوٹی ہوئی دولت وصول کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ جس کے بعد نہ عوام سے چندہ مانگنے کی ضرورت پڑے گی اور نہ کشکول لے کر قرضوں اور امداد کی بھیک کے لیے در در جانا پڑے گا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کو ایک جانب شاید یہ اندازہ نہیں تھا کہ معمولی ڈیم کی تعمیر کے لیے بھی اربوں ڈالرز درکار ہوتے ہیں۔ دوسری طرف انہیں یہ خوش گمانی رہی ہوگی کہ قوم ان کی اپیل پر روپوں اور ڈالروں کے ڈھیر ان کے قدموں میں نچھاور کر دے گی۔ لیکن اب وہ فرماتے ہیں کہ دیامر بھاشا ڈیم کے لیے چودہ ارب ڈالر چاہئیں۔ اب تک اندرون و بیرون ملک سے اس مد میں جمع ہونے والی رقم شاید ایک ارب ڈالر تک بھی نہیں پہنچی ہے۔ محترم چیف جسٹس ڈیم کی تعمیر کو بلاشبہ صرف پاکستان کی نہیں، انسانیت کی تحریک قرار دیتے ہیں، لیکن ساتھ ہی فرماتے ہیں کہ عوام پر ڈیم کے لیے ٹیکس لگانا مناسب نہیں۔ پاکستان کے غریب لوگ موجودہ حکومت کے دور میں پہلے ہی شدید مہنگائی اور ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا خیال ہے کہ انہوں نے پری پیڈ موبائل کارڈز پر جو ود ہولڈنگ ٹیکس ختم کرایا تھا، اگر قوم اجازت دے تو اسے دوبارہ لاگو کر دیا جائے، اس طرح ہر ماہ تین ارب روپے وصول کر کے ڈیم فنڈ میں جمع کرائے جا سکتے ہیں۔ عوام یہ سوچ کر پریشان ہیں کہ ایک معمولی سہولت انہیں عدالتی حکم پر ملی تھی، وہ بھی ختم کر دی گئی تو آئندہ کسی اور سہولت کی کیا امید کی جا سکتی ہے۔ چیف جسٹس ذرا توجہ فرمائیں کہ نئی حکومت نے اپنے ابتدائی سو دنوں میں ایوان صدر، وزیراعظم ہائوس اور وزیراعظم سیکریٹریٹ کے کم و بیش ساڑھے تین کروڑ روپے کے بجلی بل ادا نہیں کئے ہیں۔ دوسری جانب عام صارفین کے لیے کئی بار بجلی مہنگی کرنے کے بعد وفاقی حکومت نے ایک بار پھر نیپرا سے بجلی کے نرخوں میں ایک روپیا ستائیس پیسے فی یونٹ اضافے کی سفارش کی ہے۔ حکومتی اور سیاسی لٹیروں کی عیاشی کے مقابلے میں یہ عوام کے ساتھ شدید ظلم ہے، جبکہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار خود کہتے ہیں کہ کفر کا معاشرہ تو قائم رہ سکتا ہے، ظلم اور ناانصافی کا نہیں۔ فاضل چیف جسٹس کے علم میں یہ بات بھی آچکی ہوگی کہ حکومت اور اشتہاری ایجنسیوں نے قومی اخبارات کے اربوں روپے کے واجبات روک رکھے ہیں۔ صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون قرار دیا جاتا ہے۔ واجبات کی ادائیگی نہ ہونے کے باعث ملک بھر کے ہزاروں اخباری کارکنان کئی ماہ سے تنخواہوں کے بغیر کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے کئی لوگ خود ملازمت چھوڑ چکے ہیں اور بہت ملازمت سے فارغ کئے جا چکے ہیں۔ یہ مظلوم صحافی بھی چیف جسٹس سے انصاف کے طلب گار ہیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More