کارگل ایک عسکری کارروائی تھی اور کرتارپور سفارتی سیاست کا ایک ایسا وار ہے، جس کو روکنا بھارت کے بس میں نہ تھا۔ کرتارپور راہداری کو بھارت نے کسی کڑوی گولی کی طرح نگلا ہے۔ اس وقت تو بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے یہ مؤقف اپنایا ہے کہ بھارت برسوں سے کرتارپور سرحد کھولنے کا مطالبہ کرتا رہا تھا، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بھارت شروع سے اس سرحد کا مخالف ہے۔ بھارت نے کبھی نہیں چاہا کہ سکھ یاتری پاکستان آئیں، مگر بھارت تین کروڑ سکھوں کے مذہبی حقوق پر پابندی عائد نہیں کر سکتا۔ یہ بھارت کی بدقسمتی ہے کہ گرونانک کا گرودوارہ پاکستان کی سرزمین پر ہے۔ اس گرودوارے کی سکھوں کی نظر میں اتنی اہمیت ہے کہ سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے یاتری سینکڑوں کلومیٹرز کا سفر کرنے کے بعد کرتارپور دربار پہنچتے تھے، مگر پھر بھی ان کے ہونٹوں پر کبھی کوئی شکایت نہیں آئی۔ ویسے بھی سکھوں کے مزاج میں نہ غصہ ہے اور نہ منافقت۔ سکھ صرف مسکرانے والے نہیں، سکھ تو قہقہہ لگانے والے لوگ ہیں۔ سکھ وہ قوم ہیں، جو اپنے بارے میں لطیفے سنا کر ہنستے اور ہنساتے ہیں۔ سکھوں کو پاکستان سے کبھی کسی قسم کی نفرت نہیں رہی۔ سکھوں نے ہمیشہ پاکستان کے ان دیہاتوں اور شہروں سے محبت کی ہے، جہاں ان کے آباؤ اجداد بستے تھے۔ سکھوں کے دل میں اس سرزمین کے لیے عقیدت اور احترام ہے، جو سرزمین ان کے گرو کی جنم بھومی ہے۔ سکھوں نے مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو ہمیشہ عزت کی نظر سے دیکھا ہے۔ یہ سکھ ہی ہیں، جو اپنے خدا کو رام نہیں بلکہ ’’رب‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ سکھ برادری میں بہت سارے افراد ایسے ہیں جو رمضان کے مہینے میں مسلمانوں کے لیے افطاری کا اہتمام کرتے ہیں۔ قیام پاکستان کے دوران پنجاب میں جو خون ریزی ہوئی، اس پر اب تک سکھ اور مسلمان افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ مشہور سکھ صحافی اور مصنف خشونت سنگھ کا ناول ’’ٹرین ٹو پاکستان‘‘ اس افسوس کا تاریخی اظہار ہے۔ تقسیم ہند کو سات عشرے گزر چکے ہیں۔ اس ستر برسوں سے زائد عرصے کے دوران کبھی کسی مسلمان کے دامن پر سکھوں کا اور سکھوں کے دامن پر کسی مسلمان کے خون کا کوئی دھبہ نہیں۔ جب کہ ہندوؤں کے ہاتھ ہزاروں سکھوں کے خون سے اب تک سرخ ہیں۔ یہ ہندو حکومت تھی، جس نے سکھوں کی مقدس عبادت گاہ ’’گولڈن ٹیمپل‘‘ کو گولیوں سے چھلنی کیا۔ یہ بھارت کی بندوقیں تھیں، جنہوں نے سنہری گردوارے کو سکھوں کے خون سے سرخ کیا۔ یہ بھارت کی فوج تھی، جس نے سنت سنگھ بھنڈراناوال کو ان کی عبادت گاہ میں گولیوں سے بھونا۔ سکھوں نے اپنے اس قتل عام کے انتقام کی آگ اندرا گاندھی کے خون سے بجھانے کی کارروائی کی، مگر اب تک لاکھوں سکھ خاندانوں کے سینوں میں غم اور غصے کی وہ آگ سلگ رہی ہے۔ بھارت کے سکھ خاندان اب تک اپنے ان نوجوانوں کے لیے خون کے آنسو روتے ہیں جنہیں گھروں سے گرفتار کیا گیا، انہیں اب تک ان کی لاشیں نہیں ملیں اور انہیں یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ وہ کہاں اور کس طرح موت کے گھاٹ اتارے گئے۔ ان کے جسموں پر کس طرح سگریٹ بجھائے گئے؟ ان کی ہڈیوں کو کس طرح توڑا گیا؟ انہیں کس جرم میں قتل کیا گیا؟ بھارت کی میڈیا اب تک اس بارے میں اپنے ہونٹ تک نہیں ہلاتی۔
بھارت نے انتہائی وحشت سے خالصتان کی تحریک کو کچلا۔ سکھ بنیادی طور پر انتہائی پرامن لوگ ہیں، مگر کچھ تو تھا، جس کے لیے سکھوں نے اپنے کرپان باہر نکالے اور اپنے لیے آزاد وطن کی تمنا لے کر ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہوئے۔ اگر سکھوں اور ہندوؤں کے درمیان محبت کا رشتہ ہوتا تو خالصتان کی تحریک نہ چلتی۔ خالصتان کی تحریک کی جڑیں اس مذہبی اور ثقافتی تضاد میں پنہاں تھیں، جو ہندوؤں اور سکھوں کے درمیان ہمیشہ موجود رہا ہے۔ اس تضاد کو تاریخ نے ہمیشہ اپنے سینے میں سلگتی ہوئی آگ کی طرح سنبھالا ہے۔ بھارت ہمیشہ اس تضاد پر پردہ پوشی کرتا رہتا ہے، مگر بھارتی ترنگا اس زخم کو چھپانے کی آج تک ناکام کوشش کرتا رہا ہے۔ بھارت کے لیے یہ حقیقت بہت تلخ ہے کہ سکھوں نے کبھی بھارتی پرچم کو اپنا پرچم نہیں مانا۔ سکھوں اور ہندوؤں کے درمیان ہمیشہ سے ایک دوری رہتی آئی ہے اور اس دوری کو بھارت کی نام نہاد جمہوریت اب تک ختم کرنے میں ناکام رہی ہے اور ناکام رہے گی۔ کیوں کہ بھارت میں ہندوشاؤنزم سکھوں کے لیے ایک ایسی تہذیب ہے، جس کو سکھ کبھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ ہوئے ہیں اور نہ ہوں گے۔ سکھ جہاں بھی ہیں، وہ وہاں پر پرامن ہیں۔ سکھ صرف بھارت میں نہیں۔ سکھ امریکہ میں ہیں۔ سکھ برطانیہ میں ہیں۔ سکھ کینیڈا میں ہیں۔ سکھ اٹلی، آسٹریلیا اور ملائیشیا میں ہیں۔ سکھ جہاں بھی ہیں، وہاں انہوں نے محنت اور مشقت کی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ سکھ جہاں بھی ہیں، جس ملک میں بھی ہیں، انہوں نے اس ملک کو اپنا ملک سمجھا ہے۔ سکھ ہر جگہ خوش ہیں۔ اگر سکھ ناخوش ہیں تو صرف بھارت میں۔ سکھ بھارت میں اس طرح زندگی گزارتے ہیں، جس طرح کوئی جلاوطن زندگی گزارتا ہے۔ سکھ بھارت میں جلا وطن ہیں۔
سکھ مذہب کو جاننے والے اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ سکھ ازم مذہب سے زیادہ ایک تہذیب ہے۔ سکھوں کا تہذیبی تعلق جس طرح پاکستان سے بنتا ہے، وہ بھارت سے نہیں بنتا۔ سکھ عقیدے کی بنیاد وہ زبان اور کلچر ہے، جس کا پاکستان کے پنجابی بولنے والے لوگوں سے بنتا ہے۔ سکھوں اور پاکستان کے پنجابی بولنے والے کے درمیان جو کلچر اور ثقافت کا رشتہ ہے، اس رشتے کو بھارتی جنونیت اب تک ختم نہیں کر سکی۔ پاکستان کے پنجابی بولنے والوں اور سکھوں کے درمیان جو زبان کا رشتہ ہے، جو لوک گیتوں کا رشتہ ہے، اس رشتے کو بھارت کی ڈپلومیسی شکست نہیں دے سکتی۔ یہ رشتہ سفارت کاری نہیں ہے۔ یہ رشتہ رقص کا ہے۔ یہ رشتہ لوک گیتوں کا ہے۔ یہ رشتہ سب سے مضبوط رشتہ ہے۔ اس رشتے کو ختم کرنے میں اب تک بھارت ناکام رہا ہے۔
پاکستان نے کرتارپور کی سرحد کھول کر بھارت پر جو سفارتی حملہ کیا ہے، بھارت اس حملے سے بوکھلا چکا ہے۔ بھارت کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا کہ وہ پاکستان کی اس پیشکش کو قبول کرے۔ اگر بھارت پاکستان کی اس آفر کو قبول نہ کرتا تو وہ تین کروڑ سکھوں کے غیظ و غضب میں آجاتا۔ پاکستان نے کرتارپور کا راستہ کھول کر بھارت کو مصیبت میں ڈال دیا ہے۔ بھارت کرتارپور کی راہداری پر پاکستان کا شکریہ ادا کرنے اور پاکستان کی اعلیٰ ظرفی کا اعتراف کرنے سے قاصر ہے۔ یہ بات صرف علاقائی حد تک نہیں ہے۔ سکھ برادری پوری دنیا میں بستی ہے۔ جہاں جہاں بھی سکھ قوم سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں، وہاں وہاں پر پاکستان کے گن گائے جا رہے ہیں۔ سکھ برادری کے لیے پاکستان کا یہ قدم تاریخ کے ٹوٹے ہوئے رشتے جو جوڑنے جیسا ہے۔
یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ اب سکھ یاتری کبھی بھی اور کسی بھی وقت اپنے عظیم گرو کے دوار پر حاضری دے سکتے ہیں۔ اس وقت دنیا میں سکھ برادری مسرت کا احساس محسوس کر رہی ہے۔ کیا ہوا اگر سوشل میڈیا پر اس وقت سکھ خاندان اپنے پیار کا اظہار نہیں کر رہی۔ وہ سکھ لوگ خوف زدہ ہیں۔ ان کو ڈر ہے کہ بھارت کوئی بہانہ تلاش کرکے ان کا راستہ روک سکتا ہے۔ وہ بھارت کی فطرت کو ہم سے زیادہ جانتے ہیں۔ اس لیے اس وقت بھارتی پنجاب اور دنیا کے جس کونے میں سکھ بستے ہیں، وہاں چراغاں نہیں ہو رہا۔ یہ ناقابل بیان خوشی کا لمحہ ہے۔ مگر اس وقت بھی سکھ بہت سنبھلے ہوئے ہیں۔ ہم نہیں جانتے۔ ہمارے پاس اعداد و شمار نہیں ہیں۔ مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ کرتار پور سرحد کھلنے کے بعد کروڑوں سکھوں نے یہ سوچا ہوگا کہ ہم گرو نانک کے گردوارے پر ماتھا ٹیکنے کب جائیں؟ یہ مذہبی آزادی حقیقی طور پر انسانی حقوق کی آزادی ہے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس معاشی ترقی کے بارے میں بیان دیا ہے، وہ معاشی ترقی پاک بھارت تعلقات کے تناظر میں کچھ بھی نہیں ہے۔ اصل بات ہے سکھوں کا پاکستان میں آنا اور پے در پے آنا۔ پاکستان نے کرتارپور کا راستہ کھول کر پوری دنیا کے سکھوں کے دل جیت لیے ہیں۔ اب وہ جب بھی آئیں اور جہاں سے بھی آئیں، وہ ہر تقریب کی دعا لینے گرونانک کے گروارے پر ضرور آئیں گے۔ وہ منگنی ہو یا شادی ہو یا اور کوئی منت ہو! وہ اپنے گرو سے دعا لینے کے لیے آئیں گے اور وہ اپنی دعا میں اس پاکستان کو بھی شامل کریں گے، جس نے ان کے لیے گرو کے درشن کو اس قدر آسان بنایا کہ اب انہیں قطاروں میں کھڑے ہوکر ویزے لینے کی کوئی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔
ان کو پاکستان کی طرف سے باآسانی پرمٹ مل جائے گا۔ ان کو جو مشکل پیش آئے گی، وہ بھارت کی طرف سے پیش آئے گی، کیوں کہ بھارت کرتار پور سرحد کو اپنے خلاف پاکستان کی طرف سے قائم ہونے والا ایک خطرناک سفارتی محاذ سمجھتا ہے۔ اب سکھ یاتریوں کو پاکستان آنے میں پاکستان کی طرف سے کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی۔
اس وقت جب بھارت کی حکمران پارٹی کے ترکش میں بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر بنانے کے علاوہ اور کوئی تیر نہیں۔ اس وقت پاکستان نے اس کے سفارتی سیاست کے سارے ہتھیار بے اثر کر دیئے ہیں۔
جو لوگ سمجھتے ہیں کہ کرتار پور سرحد پاک بھارت تعلقات میں ایک امن کا سنگ میل ہے۔ ان کو پھر سے سوچنے کا مشورہ ہے۔ اس وقت بھارت اپنی ہندو جنونیت کا ترشول اپنے سینے میں اترتا ہوا محسوس کر رہا ہے۔
کرتارپور راہدری قائم کرنے کا پاکستانی پلان بھارت کے غصے کو اور بڑھائے گا۔ ہم چند برس پاک بھارت کشمکش کا منظر دیکھیں گے۔ کرتارپور سرحد پاک بھارت تعلقات میں نزدیکی آنے کا موڑ نہیں ہے۔ یہ سرحد پاک بھارت تعلقات میں دوری بڑھنے کا موڑ ہے۔ اس موڑ پر پاکستان کے قدم بہت بااعتماد ہیں اور اس موڑ پر بھارت کے قدم بہت ڈگمگائے ہوئے ہیں۔ ٭
٭٭٭٭٭