وزیراعظم عمران خان کے زیر صدارت تحریک انصاف کی حکومت کے سو روز مکمل ہونے کے حوالے سے ایک اہم اجلاس ہوا، جس میں انہوں نے قوم کو یقین دلایا کہ حکومت کی سمت درست ہے، وہ اپنے تمام اہداف حاصل کرلے گی۔ قوم سے کئے گئے وعدوں کو ضرور پورا کیا جائے گا۔ ہماری اصلاحات کے ثمرات جلد عوام تک پہنچیں گے۔ ملکی معیشت کو بھی جلد پاؤں پر کھڑا کردیں گے۔ اجلاس میں حکومت کی سو روزہ کارکردگی اور اہداف کی تکمیل کا جائزہ لیا گیا۔ وزیراعظم کو سادگی و کفایت شعاری مہم اور نیا پاکستان ہاؤسنگ منصوبے پر پیش رفت سے بھی آگاہ کیا گیا۔ کسی حکومت کی کارکردگی کو پرکھنے کے لئے سو روز کی مدت بہت کم ہے۔ اسی لئے فی الحال عمران خان قوم کو حکومت کی سمت درست ہونے کا یقین دلانے پر اکتفا کررہے ہیں، ورنہ در حقیقت اس عرصے میں ان کی حکومت کی کارکردگی اگر صفر سے نیچے نہیں تو اوپر بھی نہیں گئی۔ انہیں برسر اقتدار آتے ہی سو دنوں میں بہت کچھ کر دکھانے کا دعویٰ نہیں کرنا چاہئے تھا، لیکن جس طرح انہیں وزیراعظم بننے کی جلدی تھی، اسی طرح انتخابی مہم کے دوران وہ عوام سے ملک کی تقدیر بدل دینے اور آناً فاناً ترقی و خوشحالی لانے کے دعوے اور وعدے کرتے رہے۔ کسی غلطی کی اصلاح اس وقت تک نہیں ہوسکتی ،جب تک کوئی حکمراں اپنی اور حکومت کی کوتاہیوں اور خامیوں کو محسوس کرکے ان کا اعتراف نہ کرلے۔ وزیراعظم عمران خان کے ساتھ عوام کے حقیقی نمائندوں کے بجائے گرگ باراں دیدہ قسم کے گھاگ سیاستدانوں اور قابل انتخاب (Electables) کی اکثریت ہے، اس لئے وہ کچھ بہتر کارکردگی دکھانے کے بجائے اب بھی قوم کو صرف تسلی دینے میں مصروف ہیں۔ عوام ان کے وعدوں اور دعوؤں پر کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونے کے لئے تیار نہیں ہیں، اس لئے کہ ستر برسوں سے انہیں خوشنما الفاظ سے بے وقوف بنانے کی کوشش ہورہی تھی۔ 2018ء کے انتخابات میں انہیں عمران خان کی صورت میں فی الواقع اور بہتر تبدیلی کی امید ہوچلی تھی، لیکن انہوں نے تو آتے ہی قوم کو سب سے پہلے مہنگائی اور ٹیکسوں میں اضافے کا تحفہ دیا، جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ہمارا ہمیشہ سے مؤقف رہا ہے کہ جو سیاستدان قوم کو ’’گا، گی، گے‘‘ کے الفاظ سے بہلانے کی کوشش کرے، اس کے اخلاص پر شک کیا جاسکتا ہے۔ اچھے حکمران کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ ترجیحات کا تعین کر کے اور ابتدائی چند دنوں میں اصلاحی اقدامات کرکے قوم سے کہے کہ ہم نے اتنے دنوں میں سب سے پہلے غریبوں کا خیال کرکے مہنگائی اور بدعنوانی کا سیلاب روک دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مزید بہت کچھ کرنے والے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کسی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے قوم کو یقین دلارہے ہیں کہ ان کی حکومت کا قبلہ درست ہے، جبکہ ابتدائی سو دنوں میں عوام یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ’’صورت ببیں، حال مپرس‘‘۔ سارا حال پوچھنے کے بجائے ہمارے پژمردہ چہرے دیکھ لو، جن سے آپ کے کارنامے عیاں ہورہے ہیں۔ اس پر بھی اگر کوئی اپنی سمت درست ہونے کے ڈھول پیٹتا رہے تو آئندہ اس سے کیا توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں؟
برسر اقتدار آنے پر وزیراعظم عمران کے ایک جملے نے عوام کے دل موہ لیے تھے اور وہ خوشی سے سرشار ہوگئے کہ پاکستان کو مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنایا جائے گا، لیکن حکمران طبقے اور مراعات یافتہ خاندانوں کے روایتی اللے تللے اور ٹھاٹ باٹ دیکھ کر کوئی کیسے اعتبار کرلے کہ یہ مدینہ جیسی فلاحی ریاست قائم کرسکیں گے۔ تاریخ میں خلفائے راشدینؓ کے بعد صرف حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کا نام ایک روشن مثال کی حیثیت رکھتا ہے، جنہیں چوتھے خلیفہ حضرت علیؓ کے تقریباً اننچاس سال بعد خلافت کے منصب پر فائز کیا گیا۔ انہوں نے خلیفہ بنتے ہی حکمرانی کے انداز میں در آنے والے والی خامیوں کو دور کرنے کے صرف وعدے نہیں کئے، بلکہ پہلے ہی دن سے سابقہ حکمرانوں کے تمام ٹھاٹ باٹ ختم کرنے کا اپنی ذات اور اپنے خاندان سے آغاز کیا اور قوم کو لوٹا ہوا مال فی الفور عوام کی امانت کے طور پر بیت المال میں جمع کرادیا۔ اپنے ڈھائی سال سے کم عہد خلافت کے دوران حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے حکومت اور معاشرے کی ان تمام خرابیوں کو دور کردیا جو خلافت سے ملوکیت کی حکمرانی میں تبدیلی کے باعث پیدا ہوگئی تھیں۔ عمال حکومت کا سختی سے محاسبہ، بعض کی جائیدادیں ضبط کرکے انہیں قیدو بند کی سزائیں دینا، ان کا اتنا بڑا کارنامہ ہے کہ تاریخ میں انہیں پانچویں خلیفہ راشد کا اعزاز حاصل ہوا۔ اس کے برعکس سو دن گزرنے کے بعد بھی پاکستان کو مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانے کا دعویٰ کرنے والے وزیراعظم عمران خان کی ذاتی زندگی میں کوئی تبدیلی نظر آئی نہ ان کے وزیروں، مشیروں اور ساتھیوں میں سادگی کی کوئی جھلک دکھائی دی۔ چند بھینس اور گاڑیاں بیچ دینا کوئی کارنامہ نہیں، اصل بات تو یہ تھی کہ ان کے بر سر اقتدار آتے ہی عوام کو امن و انصاف کے قیام اور مہنگائی و بے روزگاری میں کمی کے آثار نظر آتے۔ یہ کچھ بھی نہ ہوا تو غریبوں کے لئے پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر اور ایک کروڑ افراد کو روزگار فراہم کرنے کے وعدے کب اور کیسے پورے ہوں گے؟ ادارہ شماریات پاکستان کے مطابق مئی سے اکتوبر 2018ء کے دوران ہانڈی چولھے کی اشیا کے نرخوں میں گیارہ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جس میں موجودہ حکومت کے دور میں ساڑھے آٹھ فیصد اضافہ شامل ہے۔ اس دوران بنیادی ضرورت کی اشیا مثلاً آٹا، دال، چاول، چینی، خوردنی تیل کی قیمتوں نے نئی بلندی کو چھوا۔ پاکستانی کرنسی کی بے قدری شرمناک حد تک دیکھنے میں آئی۔ درآمدات میں اضافہ اور برآمدات میں کمی کے ریکارڈ حسب سابق برقرار رہے۔ بلکہ ان میں بھی اضافہ ہوا۔ ترقیاتی بجٹ میں تین کھرب پچیس ارب روپے کی کٹوتی نے کئی منصوبے معطل یا سست روی کا شکار کردیئے۔ پیٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کی قیمتوں نے تمام اشیا کے نرخوں میں اضافے کا جو شیطانی چکر چلایا، اس کے عام شہریوں کی زندگی پر اثرات آئندہ بہت عرصے تک جاری رہیں گے۔ غرضیکہ بلند بانگ دعوؤں اور وعدوں کے سوا قومی زندگی کے کسی شعبے میں اصلاح اور بہتری کے امکانات دور دور تک دکھائی نہیں دیتے۔ حالیہ انتخابات سے پہلے ملک کے عوام، بالخصوص نوجوان یہ تصور کررہے تھے کہ تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوگئی تو ’’سو دن چور کے، ایک دن شاہ کا‘‘ کے مصداق انہیں فوراً ہی تبدیلی نظر آنے لگے گی، لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ! ٭
٭٭٭٭٭