ڈاکٹر ضیاألدین خان
ساری قوم کو مرغی کے انڈوں پر بٹھانے کے بعد حکومت نے تحریک لبیک کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی اور پیر افضل قادری کے خلاف بغاوت اور دہشت گردی کا مقدمہ درج کرلیا ہے۔ حیران ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں۔ ناموسِ رسالت کے تحفظ کی خاطر جان مال اولاد سب کچھ داؤ پر لگانے والے اس ملک میں دہشت گرد اور باغی ٹھہرے اور جڑیں کھود کر چونا ڈالنے والے معتبر۔ مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں۔ شنید ہے کہ قید کے دوران دونوں بزرگوں کو رام کرنے کی کوششوں میں ناکامی کے بعد حکومت نے یہ قدم اٹھایا ہے۔ ناموسِ رسولؐ کے تحفظ کے لئے سڑکوں پر آنے والوں کو رام کرنے کے لئے کیا پیش کش ہو سکتی ہیں۔ یہ تو حکومت جانے اور اس کے بائیں کاندھے کا فرشتہ۔ قوم تو اتنا جانتی ہے کہ تیس برس تک شہری سندھ میں خون کے دریا بہانے۔ ہزاروں لاکھوں انسان قتل کرنے۔ زندہ جلانے۔ فوج جرنیلوں آئی ایس آئی کو منہ بھر بھر کر گالیاں دینے۔ پاکستان توڑنے کی تحریک چلانے اور بھارت کے خفیہ اداروں سے ہدایات اور ڈالر وصول کرنے والے الطاف حسین کا کوئی بال بھی بانکا نہیں کر سکا ہے۔ وہ اب بھی فوج کو گالیاں دیتا ہے۔ پاکستان توڑنے کی دھمکیاں دیتا ہے۔ بھارت کے ایجنڈے پر چلتا ہے۔ اور اس کی جماعت کے ہر دھڑے میں شامل بے شمار رہنما اور کارکن اس کے رابطے میں رہتے ہیں۔ لیکن قانون کے سارے رکھوالے خاموش رہتے ہیں یا منہ پھیر لیتے ہیں۔ سوال کیا جائے تو تیوریوں پر بل پڑ جاتے ہیں۔ متحدہ کے ٹاپ دہشت گردوں کو پاشا لانڈری میں دھوکر قابل استعمال بنایا جاتا ہے۔ اور انہیں پاکستانی پرچم جیسا مقدس اور غیر متنازعہ جھنڈا استعمال کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ قاتلوں اور دہشت گردوں سے اس پرچم کو جوڑ کر کس نے ملک کی کیا خدمت کی؟ اس بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ سب جانتے ہیں کہ اسی ملک کے بڑوں نے پاکستان کی زمین اور آسمان بیچنے اور دو بار آئین سے غداری کرنے والے مشرف کو سلیوٹ دے کر رخصت کیا۔ اور مولانا مودودی اور مولانا عبد الستار نیازی کو موت کی سزا سنائی۔ یہ عجیب بات ہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین اور اس کے ساتھی بھرے جلسوں میں پاکستان کو گالی دیتے ہیں۔ فوج کے لئے وہ الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ جو ضبط تحریر میں نہیں لائے جا سکتے۔ اسلام آباد کی سڑکوں پر کھلے عام ریاست۔ ملک۔ اداروں کے خلاف سنگین الزامات لگاتے ہیں۔ لیکن انہیں کوئی کچھ نہیں کہتا۔ الٹا ایک ذمہ دار فرماتے ہیں کہ یہ ہمارے بچے ہیں۔ ان پر سختی نہیں ہونی چاہئے۔ چنانچہ اپنے بچوں میں سے دو کو قومی اسمبلی کا ممبر بنوایا جاتا ہے۔ تاکہ وہ مقدس ایوان میں ملک اور فوج پر تبرے بھیجتے رہیں۔ شیروں کو آزادی ہے آزادی کے پابند رہیں۔ جس کو چاہیں چیریں پھاڑیں۔ کھائیں پئیں۔ آنند رہیں۔ ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ ریمنڈ ڈیوس دن دیہاڑے دو قتل کرکے نکل جاتا ہے۔ اور خادم حسین رضوی ایک جملے پر دھر لیا جاتا ہے۔ ملعونہ آسیہ معصوم ٹھہرتی ہے اور پیر افضل قادری گناہ گار۔ راؤ انوار جیسا قاتل سینہ تان کے دندناتا ہے۔ اور نقیب اللہ کا بوڑھا باپ محمد خان سر جھکائے گھر میں بیٹھ جاتا ہے۔ امریکی سفارت کار سڑک پر دو بندے کچل کر ٹیم ٹام سے نکل جاتا ہے اور آپ ہاتھ باندھے سر جھکائے عجز و غلامی کی تصویر بنے محو نالہ جرس کارواں رہتے ہیں۔ پھر بے گناہ مرنے والے کے خاندان کو خشمگیں نگاہوں سے خاموش کرا دیتے ہیں۔ مقتول کا خاندان آج بھی انصاف کے لئے در بدر ہے۔ خیر بخش مری جیسے غدار کو پاکستان لانے کے لئے خصوصی طیارہ کابل بھیجتے ہیں اور ملا ضعیف جیسے باعزت اور مسکین سفیر کو زنجیروں میں باندھ کر امریکیوں کے ہاتھ فروخت کر دیتے ہیں۔ محمود اچکزئی جیسے پاکستان دشمن کو سر پر بٹھا کر پورا خیبر پختون اس کے حوالے کر دیتے ہیں۔ اور حکمت یار جیسے پاکستان دوست کے آنے پر پابندی لگا دیتے ہیں۔ بلوچستان میں ٹاپ دہشت گردوں سے مذاکرات کرکے قومی دھارے میں لاتے ہیں اور حافظ سعید جیسے محب وطن کو برسوں تک نظر بند رکھتے ہیں۔ سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے بعد امریکی سپلائی روک دیتے ہیں۔ اور مشرقی پاکستان کی بقا کی جنگ میں آپ کے شانہ بشانہ لڑنے والوں کی پھانسی پر منہ پھیر لیتے ہیں۔ آرمی پبلک اسکول پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کو بیخ و بنیاد سے اکھاڑ دیتے ہیں۔ اور کراچی میں ہزاروں لاکھوں بے گناہوں کو قتل کرنے والوں اور زندہ جلانے والوں کو جائے پناہ دے دیتے ہیں۔ انہیں ایک اور موقع دینے کا اعلان کرتے ہیں۔ اسلام آباد کے ڈی چوک میں 126 دن دھرنا دینے والے حکومت گرانے کے لئے ٹل کا زور لگاتے ہیں۔ لیکن خود حکومت میں آتے ہیں۔ تو فیض آباد اور لاہور میں پندرہ دن کا دھرنا بھی برداشت نہیں کرتے۔ 126 دن دھرنا دینا ان کا جمہوری حق تھا۔ لیکن پندرہ دن دھرنا آئین اور قانون سے بغاوت ہو گیا۔ سیاسی دھرنے کے پیچھے ساری طاقتیں جمع تھیں۔ اور مذہبی دھرنے کے خلاف ساری طاقتیں جمع ہوگئیں۔ 126 دن کے دھرنے پر کوئی عدالت نہیں جاگی۔ لیکن پندرہ دن کے دھرنے پر ساری عدالتوں کو قانون یاد آگیا۔ پی ٹی وی پر حملہ کرنے والے بلوائیوں کے خلاف کسی نے ایکشن نہیں لیا۔ اور چند راستے بند کرنے والوں کے خلاف دہشت گردی کے مقدمے بن گئے۔ پارلیمنٹ کا محاصرہ کرنے والوں کی پیٹھ سب نے تھپکی اور پنجاب اسمبلی کے سامنے امن سے بیٹھنے والوں پر سب نے تیر برسائے۔ مطلب یہ کہ پچھلے دور میں دھرنا حلال تھا۔ اب حرام ہے۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ پہلے نواز شریف را کا ایجنٹ تھا۔ اب خادم رضوی آئین کا باغی ہے۔ چنانچہ ملعونہ بے گناہ ہے اور ممتاز قادری گناہ گار۔ ڈالر حاکم ہے اور کلمہ محکوم۔ گستاخی رسول آزادیٔ اظہار ہے اور ناموسِ رسولؐ کا تحفظ دہشت گردی۔ مونچھ کو سلام ہے اور داڑھی حرام ہے۔ لونڈوں کی عزت ہے اور مولوی کی توہین۔ خرد کا نام جنوں ہے اور جنوں کا نام خرد۔ ناخوب بہت خوب ہے اور خوب بہت ناخوب۔ پرانا پاکستان سجدے کا عادی تھا۔ نیا پاکستان رقص کا۔ پرانا با ادب تھا۔ نیا بے ادب۔ پرانا ڈیم بناتا تھا۔ نیا مرغی بانٹتا ہے۔ افسوس کہ انسان فروشی سے مرغ فروشی تک سفر کرنے والوں نے اب تک سبق نہیں سیکھا۔ نہ زمانے سے۔ نہ اعمال سے۔ نہ نقصان سے۔ یادش بخیر۔ چند ماہ پہلے کی بات ہے۔ ایک اعلیٰ عہدیدار نے دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا۔ بات سلمان تاثیر اور ممتاز قادری شہید کی طرف چل نکلی۔ مذکورہ عہدیدار کا کہنا تھا کہ سزا تو اسے ٹھیک ملی۔ کیونکہ جس کی حفاظت کی ڈیوٹی دی گئی تھی۔ اس نے وہی بندہ مار دیا۔ قانون کی نظر میں یہ ناقابل معافی جرم ہے۔ اس پر گرفت نہ ہوتی تو ہر پاسبان قاتل بن جاتا۔ ادب سے جواب دیا کہ آپ آدھی بات کر رہے ہیں۔ پوری نہیں۔ اور پوری بات یہ ہے کہ ممتاز قادری کی دو ڈیوٹیاں آپس میں ٹکرا گئی تھیں۔ اور وہ مجبور تھا کہ ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے۔ اور اس چناؤ پر اسے سلمان تاثیر نے مجبور کیا تھا۔ ایک ڈیوٹی تھی رسولؐ اللہ کے ناموس کے تحفظ کی مذہبی ڈیوٹی۔ جو بطور مسلمان ہر ایک پر فرض ہے۔ اور دوسری تھی سرکاری ڈیوٹی۔ جو اس بندے کے تحفظ کو یقینی بناتی تھی۔ جو گستاخی رسول کا مرتکب ہوا تھا۔ اور ملعونہ کا سب سے بڑا حمایتی تھا۔ ہم نے پوچھا۔ آپ بتائیں۔ دونوں میں سے کون سی ڈیوٹی ضروری تھی؟ ظاہر ہے ممتاز قادری نے بھی اسی ڈیوٹی کا انتخاب کیا۔ جو اللہ اور اس کے رسولؐ نے ہر مسلمان پر فرض کر رکھی ہے۔ اب اس فرض کی ادائیگی سے دنیاوی ڈیوٹی متاثر ہوئی تو اس میں قادری کا کیا قصور؟ یہ تو ان لوگوں کا کام تھا۔ جو مسلمان کی مذہبی ڈیوٹی کو آواز دے کر خود جگاتے ہیں۔ اور پھر سزا بھگتتے ہیں۔ رسول پاکؐ کی گستاخی کرنے والوں کو پہلے سے سوچنا چاہئے کہ وہ گستاخی کر کے ہر مسلمان کو مجبور کر رہے ہیں کہ ناموس رسولؐ کی حفاظت کے لئے اٹھ کھڑا ہو اور شرعی احکامات پورے کرے۔ قادری نے بھی یہی کیا۔ اب جو قادری کے فیصلے پر پریشان ہے۔ اسے چاہئے کہ آئندہ یہ نوبت نہ آنے دے کہ دنیاوی قانون اور اللہ کے قانون میں ٹکراؤ ہو۔ اور مسلمان کسی ایک کے انتخاب پر مجبور ہو۔ اگر آپ اسے مجبور کریں گے کہ وہ دونوں میں سے کوئی ایک ڈیوٹی اختیار کرے۔ تو آپ ہی کا نقصان ہوگا۔ یہ سن کر عہدیدار خاموش ہوگئے۔ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ تحریک لبیک صرف ایک مقصد لے کر کھڑی ہوئی ہے۔ اور اس مقصد کا تعلق مذہب اور رسول پاکؐ کے احترام سے ہے۔ یہ ایک غیر متنازعہ مقصد ہے۔ ہر مکتب فکر کا مسلمان اس پر متفق ہے۔ ہاں اسی مقصد کے حصول کے لئے بے شک تحریک کے بڑوں سے بعض غلطیاں ہوئی ہیں۔ لیکن ان غلطیوں کو درست کرنے کے لئے تحریک کی قیادت کو آن بورڈ لینا چاہئے تھا۔ ان سے بات کر کے انہیں مطمئن کرنا چاہئے تھا۔ تاکہ وہ اپنی غلطیوں کو دوبارہ نہ دہراتے۔ لیکن اس کے بجائے ملعونہ آسیہ کو رعایت اور تحفظ دے کر مغرب کو خوش کیا گیا۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ قانونی تاویلوں سے کسی گستاخ کے تحفظ کا راستہ نکالنا آگ سے کھیلنا ہے۔ عدالتوں کو چاہئے کہ ایسے مقدمات میں ممتاز اور معتبر علما پر مشتمل بورڈ تشکیل دیں۔ جو مقدمے کے مذہبی پہلوؤں کا جائزہ لے کر اپنی سفارشات عدالت کے سامنے پیش کرے۔ اس کے بعد ہی آئین پاکستان یا تعزیرات پاکستان کی باری آتی ہے۔ لیکن اگر ایسے حساس مقدمات میں شرعی احکامات کو نظر انداز کیا گیا تو پھر یہ ایک فرد کا معاملہ نہیں رہے گا۔ چوبیس کروڑ عوام کے ایمان کا مسئلہ بن جائے گا۔ پھر آپ کس کس کو سزا دیں گے؟ اور اگر کسی کا خیال ہے کہ ان مقدمات سے خادم رضوی اور افضل قادری کو قابو کر سکتا ہے۔ یا ناموس رسالتؐ کی تحریک دبا سکتا ہے۔ تو وہ کوشش کر کے دیکھ لے۔ اس سے پہلے بھی یہ حرکتیں ہوتی رہی ہیں۔ اور ان کا خمیازہ ملک کو بھگتنا پڑا ہے۔ ناموس رسالت کے تحفظ کے قانون سے چھیڑ چھاڑ ہو یا ملعونوں کو بچانے کے لئے چور راستوں کی تلاش۔ دونوں میں خسارہ ہے۔ دنیا کا بھی۔ دین کا بھی۔ اور سب سے بڑھ کر آپ ایسا کرکے دشمن کو یہ موقع دیتے ہیں کہ آپ کے جسد میں ڈرل مشین چلا کر سوراخ کرے اور اس میں بارود بھر دے۔ تاکہ پورا جسد اڑایا جا سکے۔ آپ یہی کرنا چاہتے ہیں۔ تو بے شک غداری کے مقدمے بناتے رہیں۔ آپ کو کون روک سکتا ہے؟ ویسے بھی اس ملک میں غداری کے مقدمے میں ملوث بندے کو جو عزت ملتی ہے۔ اور جس طرح چوکی پہرے اسے دبئی بھیجا جاتا ہے۔ اسے دیکھ کر تو ہر بندہ رشک میں ڈوب جاتا ہے۔ بس یہ ہے کہ ہر بندہ چیف نہیں ہوتا۔ ٭