دیر آید درست آید ! (دوسراحصہ)

0

نہیں ایسا ہرگز بھی نہیں، کوئی اتنا سفاک اور بے رحم نہیں ہو سکتا کہ کسی کی بے روزگاری اور اس کے کاروبار کی مسماری پر شاداں و نازاں ہو۔ گزشتہ کل شائع ہونے والے کالم پر بعض احباب نے کچھ ایسا ہی تاثر دیا، جیسے حافظ جی کراچی میں ہونے والی توڑپھوڑ پر جشن منا رہے ہوں۔ تاہم حافظ جی قواعد و ضوابط کے نفاذ پر مطمئن اور اپنے مؤقف پر قائم ہیں اور اب بھی برملا کہتے ہیںکہ عوام کے اجتماعی حقوق پر ڈاکہ مارنے والوں سے کوئی رو رعایت نہیں برتنی چاہئے اور قابضین کو لائن و لینتھ میں لانا چاہئے کہ اسی طرح قومیں مہذب اور معاشرے بے ہنگمی سے آزاد اور پُرسکون رہتے ہیں۔
کراچی میں جو کچھ ہو رہا ہے، یہ کام تو بہت پہلے ہونا چاہئے تھا، اس معاملے کو عدلیہ تک بھی نہیں جانا چاہئے تھا، مگر مجبوری یہ تھی کہ قابض مافیا اتنی طاقتور ہو چکی ہے کہ یہ مسئلہ سیاسی طور پر حل نہیں ہو سکتا تھا، جس معاشرے میں ایک عام پولیس مین سے لے کر وزیر اعلیٰ تک قومی ترجیحات کے بجائے اپنی ترجیحات اور مفادات کو فوقیت دے، وہاں بگاڑ و انتشار ہی جنم لیتا ہے۔ سندھ حکومت بھی تجاوزات کے ضمن میں حرکت میں آگئی ہے اور اسے ہفتوں بعد انسانی مسئلے کا بھی خیال آگیا ہے، سو چیف جسٹس کو اس معاملے پر نظرثانی کی درخواست دینے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ حافظ جی حکومت کے اس جذبۂ ہمدردی پر تحفظات رکھتے ہیں، تاہم ان تحفظات کا اظہار آئندہ کالم تک مؤخر کرتے ہیں۔
کراچی ایک بین الاقوامی شہر ہے، اس شہر کی عالمی پہچان ہے، اسے گہن نہیں لگنا چاہئے۔ حضور حدود وقیود سے آگے تو انسان کا پیٹ نکل آئے تو سیانے دوا دارو شروع کر دیتے ہیں، پھر یہ تو پورے شہر کی نقشہ گری ہے۔ یہ سڑکیں، گلیاں، چوراہے اور یہ شاہراہیں تو میرے اور آپ کے دلبر کراچی کی خوبصورتی اور اس کا حسن ہیں۔ یہاں کی سڑکیں تو ہماری آمد و رفت کی معاون ہیں تو حافظ جی کیوں ان کی بندش کے توڑ پر ماتم کریں اور کیوں اس کی آرائش و زیبائش کی حمایت نہ کریں؟
اللہ میاں نے ہر انسان کو عقل دی ہے۔ آنکھیں، ناک، کان سبھی کچھ تو دیا ہے تو پھر مکھی بال دیکھ کر کیوں نہیں کھاتے؟ کیوں نہیں سوچتے! آخر ان گزر گاہوں پر آپ کے بچے اور عزیز و اقارب بھی تو گزرتے ہیں۔ مریضوں کو اسپتال لے جانے والی ایمرجنسی ایمبولینسز کو بھی ہم سب نے انہی سڑکوں پر پھنس کر ہوٹر بجاتے دیکھا ہے۔ کون سا ایسا مصروف راستہ یا سڑک ہے، جہاں آدھی سے زیادہ سڑک قابضین کے قبضۂ قدرت میں نہ ہوتی ہو۔ چھ فٹ کی دکان کے آگے آٹھ سے دس فٹ کا قبضہ، پیدل چلنے والوں کے حق پر بھی ڈاکہ، فٹ پاتھ پر بھی دکان کا سامان۔ صرف یہی نہیں، اپنی اپنی دکان کے سامنے پتھارے لگوا کران سے بھی مال بٹورنا، سڑک کی ایک لین میں دکانداروں کی گاڑیوں کی پارکنگ، دوسری لین میں خریداروں کی گاڑیاں، اب بچا ہی کیا، صرف ایک لین! عوام کو جو کرنا ہے اسی لین پر کرنا ہے، اسی پر پبلک ٹرانسپورٹ بھی ہے تو نجی گاڑیاں اور ایمبولینسز بھی۔ نہ جانے کتنے مریض اسی بے ہنگمی کے سبب اسپتالوں کے بجائے عالم ارواح میں گھوم رہے ہیں۔ کیا ایسا کرکے ہم خود کو مہذب معاشرے کا شہری کہلوا سکتے ہیں؟
جو لوگ کے ایم سی اور دوسرے اداروں کو اپنی جگہوں کی ادائیگیاں کرتے رہے ہیں، ان کا حق بنتا ہے کہ انہیں حکومت اور یہ ادارے متبادل جگہ اور دکانیں فراہم کریں، لیکن جو لوگ مدتوں سے ناجائز طریقوں سے ان جگہوں پر قابض تھے، ان کا کوئی حق نہیں کہ وہ واویلا مچائیں۔ قابضین کا یہ استدلال کوئی معنیٰ نہیں رکھتا کہ وہ چالیس یا پچاس سال سے یہاں کاروبار کر رہے تھے۔ اس قبضے پر تو ان کے خلاف کارروائی بنتی ہے، قبضہ اگر پرانا ہے تو کیا وہ جائز ہوگیا؟ اور کیا اس کی واگزاری سے ہاتھ کھینچ لیا جائے؟ ٹھیک ہے پچاس ساٹھ سال سے متعلقہ اداروں کے ذمہ داروں نے سیاسی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہوکر اس طرف سے آنکھیں بند کر رکھی تھیں، مگران کو بڑھاوا کس نے دیا؟ پیسہ آتا کسے برا لگتا ہے؟ راشی افسران اور اہل کاروں کی جیبیں کون گرم کرتا رہا؟ انہیں اپنے ہوٹلوں سے مفت کھانے اور دکانوں سے دیگر سہولیات کون فراہم کرتا رہا؟ آپ ہی تھے نا جو ناجائز دھندے میں ان کے معاون بنے ہوئے تھے تو اب گلہ کس بات کا؟
حافظ جی اس بات کے پُرزور حامی ہیں کہ سزا صرف آپ کو ہی نہیں، کے ایم سی، کے ڈی اے اور بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ان ذمہ داروں کو بھی ملنی چاہئے، جنہوں نے اپنے سرکاری اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اس شہر کی سڑکوں، گلیوں اور چوراہوں کو فروخت کیا اور خریدار کون تھا؟ سو فی صد آپ! آپ ان افسران و اہل کاروں میں سے بیشتر کو جانتے بھی ہوں گے، جنہیں آپ ادائیگیاں کرتے رہے ہیں، تو پھر تاخیر کیوں؟ آپ سب کو مل کر اعلیٰ عدلیہ سے درخواست کرنی چاہئے کہ وہ ان ظالموں کی پکڑ کا بھی اہتمام کرے، جن کے طفیل آپ اس حال کو پہنچے۔ آپ کوشش تو کریں، حافظ جی کو یقین ہے کہ عدلیہ آپ کو تاراج کرنے والے مجرموں کے خلاف بھی ایکشن لے گی، انہیں کٹہرے میں لائے گی۔ مگر آپ ایسا نہیں کر رہے اور ایک بار پھر انہی سیاسی بازی گروں کے چکر میں ہیں، جو آپ کے سامنے آپ کے حقوق کی ڈگڈگی بجاکر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔
گستاخی معاف! دیکھنے میں یہی آرہا ہے کہ وہ تاجر اور دکان دار جن کی دکانیں اور تجاوزات مسمار کی گئی ہیں، ان کے معاملات کی آڑ میں اپنی سیاسی دکانیں چمکانے والی، عوام کی مسترد شدہ چند لسانی و مذہبی جماعتیں متاثرین کو جمع کرکے انہیں پُر تشدد احتجاج کے لئے اکسا رہی ہیں۔ اس نمبر گیم میں سندھ حکومت بھی کود پڑی ہے۔ ایسے میں حقیقی اور غیر حقیقی دونوں متاثرین کو یاد رکھنا ہوگا کہ قوانین کو للکارنے سے حقوق نہیں ملا کرتے، اس کے لئے قوانین پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ یہی راستہ مسائل کے حل کی طرف جاتا ہے، لہٰذا ایسے کسی راستے پر نہ چلیں، جو معاملات میں مزید بگاڑ پیدا کرکے آپ کے لئے مشکلات کا سبب بنے۔ (وما توفیقی الا باللہ)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More