ڈاکٹر عبد العزیز پٹھان
عبدالمطلب اپنے بیٹوں کو لے کر کعبہ کے اندر ہُبل نامی بت کے پاس آئے۔ ہُبل کے پاس سات تیر رکھے تھے، جن میں سے ایک خون بہا کی نیت سے تھا کہ اس کو کون اپنے ذمے لیتا ہے۔ لہٰذا وہاں کے مجاور نے ایک تیر پر نعم لکھا جس کا مطلب ہے کہ یہ کام اچھا ہے کہ گزرو اور ایک تیر پر لکھا لا یعنی یہ کام نہ کرو اور جب کسی کام کرنے میں تردد ہوتا تو پھر قرعہ ڈالا جاتا، اگر نعم کا قرعہ نکلتا تو کام کر گزرتے اور اگر لا کا قرعہ نکلتا تو کام کو ایک سال کے لیے ٹال دیتے۔
اب انہوں نے قرعہ فال ڈالا تو اتفاق سے عبد اللہ کا نام نکالا۔ یہ دیکھ کر عبدالمطلب اپنے ہاتھ میں چھری لے کر عبد اللہ کا ہاتھ پکڑا، اساف اور نائلہ دونوں بتوں کے پاس بیٹے کو ذبح کرنے کے واسطے لارہے ہیں، قدرت خدا کو دیکھئے کہ قریش ہر طرف سے عبد المطلب کے پاس جمع ہو گئے اور کہا: اے عبد المطلب! یہ تم کیا کررہے ہو۔ عبد المطلب نے کہا: میں اپنے اس بیٹے کو ذبح کرنا چاہتا ہوں۔ قریش چیخ پڑے کہ یہ ہرگز نہیں ہو سکتا، اگر تم نے ایسا کیا تو پھر اور لوگ بھی اپنے بیٹوں کو ذبح کیا کریں گے اور بنی نوع انسان کی بقا دشوار ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ مغیرہ بن عبد اللہ بن عمر بن مخزوم جو عبد اللہ کے ماموں تھے، انہوں نے قسم کھا کر کہا: اے عبدالمطلب! تم ہرگز اس کو ذبح نہیں کر سکتے۔ اگر بدلے میں فدیہ دینا چاہو تو ہمارے مال میں سے لے لو۔
لہٰذا اب یہ سارے لوگ مدینہ گئے، جہاں ایک کاہنہ سے ملے، جس کیلئے مشہور تھا کہ اس کے پاس کوئی جن آتا ہے، جس سے دریافت کر کے وہ مسئلہ کا حل بتاتی تھی، لیکن وہ عورت تو خیبر میں رہتی تھی، لہٰذا یہ خیبر پہنچ گئے۔ اس عورت نے مسئلہ سن کر دوسرے دن آنے کو کہا: پھر دوسرے دن اس عورت نے عبد المطلب کو کہا کہ اس لڑکے اور دس اونٹوں کے دو الگ الگ تیر لکھو اور پھر تیر پر قرعہ نکالو۔ اگر
قرعہ عبد اللہ پر نکلے تو دس اونٹ بڑھا دو اور پھر قرعہ نکالتے جائو، ہر دفعہ اگر قرعہ عبد اللہ کا ہی آئے تو ہر دفعہ دس اونٹ بڑھاتے جائو، یہاں تک کہ قرعہ اونٹوں پر نکل آئے۔ لہٰذا ایسا ہی کیا گیا اور ایک سو اونٹوں پر جب پہنچے تو اونٹوں پر قرعہ نکل آیا۔ لہٰذا سب لوگ خوش ہو گئے، لیکن عبدالمطلب کے کہنے پر تین مرتبہ اور نکالا گیا، پھر ہر دفعہ قرعہ اونٹوں پر ہی نکلا۔ لہٰذا عبد اللہ کے عوض ایک سو اونٹ قربان کئے گئے۔ (بحوالہ ابن ہشام۔ صفحہ 105-104 جلد اول)
چنانچہ اس تجویز پر عمل کیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے عبداللہ کو اسی طرح محفوظ رکھا، جس طرح ان کے جدامجد اسماعیل بن ابراہیمؑ کو چھری سے بچا کر مینڈھا ذبح کرنے کا حکم دیا۔ وہ مینڈھا جنت سے جبریلؑ لے کر آئے تھے۔ عبداللہ کے بدلے میں اسی زمین پر چلنے پھرنے والے جانوروں یعنی
اونٹوں کی قربانی کا فیصلہ ہوا، یوں نبی اکرمؐ ذبیح ابن ذبیح ہیں کی اولاد ہیں۔
جناب عبدالمطلب کے بیٹوں اور بیٹیوں کے نام درج ذیل ہیں۔
-1 حارث بن عبدالمطلب: انہی کے نام سے عبدالمطلب ابوالحارث کی کنیت سے معروف تھے، یہ اپنے والد کی زندگی میں ہی انتقال کر گئے تھے، مشہور صحابی سفیان بن حارثؓ انہی کے بیٹے تھے۔
-2 زبیر بن عبدالمطلب: زبیر کو عبد المطلب نے اپنا جانشین بنایا۔
-3 ابو طالب بن عبد المطلب: ان کا نام عبد الکعبہ اور عبد مناف بھی بیان ہوا ہے، اپنے بیٹے طالب کی نسبت سے ابوطالب کہلائے۔ حضور اقدسؐ کے والد عبد اللہ اور ابو طالب ایک والدہ سے تھے۔ -4 عبد اللہ بن عبد المطلب: حضور اقدسؐ کے والد گرامی قدر۔ یہ بھی اپنے والد کی زندگی ہی میں عنفوان شباب میں شادی کے بعد انتقال کر گئے تھے۔
-5 ابولہب بن عبد المطلب: اس کا نام عبد العزی تھا اور کنیت ابو عتبہ تھی۔ سرخ اور سفید چہرے کی وجہ سے والد نے اس کو ابولہب کہا اور یہی نام مشہور ہو گیا۔ حضور اقدسؐ کا بدترین دشمن تھا۔ قرآن پاک میں سورۃ لہب میں اس کا نام لے کر خدا نے اس پر لعنت بھیجی ہے۔ دیگر دشمنان اسلام کی بھی مذمت کی گئی ہے، مگر نام نہیں لیا گیا۔
-6 قثم بن عبد المطلب: ابن سعد کے مطابق یہ لاولد فوت ہو گئے تھے۔ حضرت عباسؓ نے اپنے بیٹے حضرت قثمؓ کا نام اپنے اسی بھائی کے نام پر رکھا تھا۔
-7 ضرار بن عبد المطلب: یہ اپنی خوبصورتی اور حسن و جمال کے ساتھ سخاوت اور فیاضی کی وجہ سے بھی تمام قریش میں ممتاز اور معروف تھے۔
حضرت حمزہ بن عبد المطلب:خدا و رسولؐ کے شیر۔ بدر کے معرکے میں بہترین کارنامے سرانجام دیئے اور احد کے میدان میں شہادت کے رتبہ پر فائز ہوئے۔ شہادت کے بعد کفار نے ان کے جسد اطہر کا مثلہ کیا، جس سے حضور اقدسؐ انتہائی رنجیدہ ہوئے اور آپؐ نے فرمایا: کہ اگر خدا نے مجھے ان کفار پر فتح عطا فرمائی تو میں ان کے ستر آدمیوں کا مثلہ کروں گا۔ بعد میں حق تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی: (ترجمہ) ’’اور اگر تم لوگ بدلہ لو تو بس اسی قدر لو جس قدر تم پر زیادتی کی گئی ہو۔ لیکن اگر تم صبر کرو تو یقینا یہ صبر کرنے والوں کے حق میں بہتر ہے۔‘‘ سورۃ النحل 126۔
اس کے بعد آپؐ نے اپنے ارادے سے رجوع فرما لیا اور زندگی بھر کبھی کسی کا مثلہ نہیں کیا، بلکہ سخت الفاظ میں اس سے منع فرمایا۔ (تفسیر ابن کثیر ج 4 ص 237-236)
-9 المقوم بن عبد المطلب۔
-10 حضرت عباسؓ عبد المطلب: صحابی رسول جن کو آنحضورؐ نے اپنے والد کے برابر قرار دیا۔
-11 حجل بن عبد المطلب: ان کا نام مغیرہ بھی مؤرخین نے بیان کیا ہے۔
-12 الغیداق بن عبد المطلب: ان کا نام مصعب بھی بیان ہوا ہے۔ ان کی ماں کا نام ممنعہ بنت عمرو تھا۔ ان کے ماں جائے بھائی عوف بن عبد عوف تھے، جو مشہور صحابی (یکے از عشرہ مبشرہ) حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ کے والد تھے۔
جناب عبد المطلب کے بارہ بیٹوں کے علاوہ خدا نے انہیں چھ بیٹیاں بھی عطا فرمائیں۔ ان کی بیٹیوں کے نام تاریخ اور سیرتؐ کی کتابوں میں مذکور ہیں، اس ریکارڈ کے مطابق چھ بیٹیوں کے نام ذیل میں دیئے جا رہے ہیں۔
-1 البیضاء (ام حکیم بنت عبد المطلب)۔ -2 عاتکہ بنت عبد المطلب۔ -3 برہ بنت عبد المطلب -4امیمہ بنت عبد المطلب۔ -5ارویٰ بنت عبد المطلب۔ -6حضرت صفیہؓ بنت عبد المطلب۔
حضرت صفیہؓ مشہور صحابیہ اور حواری رسول حضرت زبیر بن العوامؓ (یکے ازعشرہ مبشرہ) کی والدہ محترمہ تھیں، یہ حضرت خدیجہؓ کی بھابی بھی لگتی تھیں۔ عوام بن خویلد حضرت خدیجہؓ کے سگے بھائی تھے۔
رسول اقدسؐ کی والدہ محترمہ آمنہ بنت وہب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب بن مرہ ہیں۔ ان کی والدہ یعنی حضور اقدسؐ کی نانی کا نام برہ بنت عبد العزیٰ بن عثمان بن عبد الدار قصی بن کلاب ہے۔ نانی محترمہ کی والدہ ام حبیب بنت اسد بن عبد العزیٰ بن قصی بن کلاب ہیں۔ ان کی والدہ کا نام بھی ان کی نانی اماں کی طرح برہ ہے۔ برہ بنت عوف بن عویج بن عدی بن کعب بن لؤی۔ ان کی والدہ کا نام قلابہ بنت الحارث بن مالک بن حباشہ بن غنم، بن لحیان بن عادیہ بن صعصع بن کعب بن ہند بن طابخہ بن لحیان بن ہذیل بن مدرکہ ابن الیاس بن مضر ہے۔ ابن سعد نے اس سلسلے کو کئی پشتوں تک لکھا ہے۔