محمد صلاح الدین شہیدؒ کی کچھ یادیں!

0

قربان انجم
میں ’’جنگ‘‘ کراچی سے وابستہ تھا۔ لاہور میں بطور نامہ نگار ذمہ داریاں انجام دے رہا تھا کہ ایک روز جناب مجیب الرحمن شامی نے بلا کر مجھے کہا: ’’برادرم محمد صلاح الدین نے چند روز قبل مجھے کہا تھا کہ انہیں ’’جسارت‘‘ کیلئے موزوں رپورٹر چاہئے۔ میں نے تمہارا نام تجویز کیا ہے اور ساتھ ہی یہ تبصرہ بھی ان تک پہنچایا ہے کہ قربان انجم سے زیادہ موزوں کوئی رپورٹر نہیں‘‘۔ کچھ دنوں کے بعد صلاح الدین صاحب لاہور آئے تو اس سلسلے میں ان سے ملاقات کا اہتمام کر دیا گیا۔ حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا کہ بعض معاملات پر مزید غور کرنے کی ضرورت تھی۔ چند روز کے بعد مولانا مودودی مرحوم کے صاحبزادے محمد فاروق مودودی نے مجھے بتایا ’’آپ جسارت سے وابستگی اختیار کر لیں۔ آپ کو اس حوالے سے جو پیشکش ہوئی ہے وہ میرے علم میں بھی ہے۔ میں ’’پس پردہ‘‘ کے نام سے ایک ہفت روزہ جاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ میں نے جناب محمد صلاح الدین سے بات کر لی ہے کہ جب قربان انجم جسارت سے وابستہ ہو جائیں گے تو ’’پس پردہ‘‘ میں بھی لکھتے رہیں گے۔ اس دوران بعض ایسے حالات پیش آئے کہ محمد صلاح الدین شہیدؒ نے جسارت سے علیحدگی اختیار کر کے ’’تکبیر‘‘ کے اجرا کا فیصلہ کر لیا تو لاہور میں مجھے ذمہ داریاں تفویض کر دیں۔
’’تکبیر‘‘ کے ساتھ محمد صلاح الدین کی ادارت کے دوران میں چند سال کا عرصہ میری صحافتی زندگی کا بے حد نفع بخش تجربہ ہے۔ مدیر، دانشور، تجزیہ کار کے علاوہ انسان کی حیثیت سے شہید کو جو منفرد ممتاز مقام حاصل ہے، وہ تاریخ صحافت کے اوراق میں درخشندہ باب کی حیثیت سے ہمیشہ قائم رہے گا۔ انہوں نے ’’تکبیر‘‘ سے وابستگی سے قبل میرا کوئی Trial نہیں لیا اور ابھی میری کوئی ایک بھی تحریر تکبیر میں شائع نہیں ہوئی تھی کہ میرا مشاہرہ مقرر کر دیا، جو اس وقت کے ویج بورڈ ایوارڈ میں طے مشاہرے سے زیادہ تھا۔ میرے توسط سے کوئی اشتہار مل جاتا تو اس کا کمیشن مستزاد تھا۔ جب انہیں پتا چلا کہ میرے پاس موٹر سائیکل نہیں ہے تو ادارے کے انتہائی نامساعد حالات کے باوجود مجھے موٹر سائیکل خریدنے کیلئے رقم بھیج دی۔ یہ بظاہر معمولی بات ہے، مگر میرے لئے غیر معمولی اعانت کا درجہ رکھتی تھی۔
اس دوران میری والدہ علیل ہو گئیں۔ جب محمد صلاح الدین صاحبؒ کو پتہ چلا تو ایک مشترکہ دوست کے ہاتھ کچھ رقم بھجوائی اور کہلا بھیجا ’’قربان انجم پر واضح کر دینا کہ یہ رقم دانستہ بذریعہ منی آرڈر ارسال نہیں کی جا رہی ہے، اس کا کوئی رسید پتہ نہیں ہے۔ قربان انجم کی ماں ہماری بھی ماں ہے۔‘‘ کس قدر گرانقدر تھی یہ اعانت؟ میں بیان نہیں کر سکتا۔ اپنے تمام رفقاء کار کے ساتھ ان کا سلوک افراد خانہ جیسا تھا۔ جب ان کی شہادت کی خبر ملی تو میں دفتر میں تھا۔ معمول سے پہلے گھر آ گیا۔ میرے اہل وعیال فرش پر ایک صف بچھا کر بیٹھے شہید کی یادیں تازہ کرتے ہوئے دعائے مغفرت کر رہے تھے۔
قارئین شہید کی بطور صحافت جرأت و استقامت اور قید و بند جیسی صعوبتوں کے دوران ضبط و تحمل کی تفصیلات تو سن اور پڑھ چکے ہیں۔ مرحوم حاجت مندوں کی حاجت روائی، اعانت کے حوالے سے بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ ان کی شہادت کے بعد پتہ چلا کہ 84 مختلف سماجی تنظیموں کا بار اٹھائے ہوئے تھے۔ صحافت میں جرأت کے علاوہ دیانت کی لاتعداد شاندار مثالیں جو بیان کی جاسکتی ہیں، مگر اس نشست میں ان میں سے صرف ایک کے ذکر پر اکتفا کرتا ہوں۔ جب میاں محمد نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے، انہوں نے ایک خصوصی حکم کے تحت ’’تکبیر‘‘ کیلئے ہم عصر جرائد کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ اشتہارات کی منظوری دیدی۔ جناب محمد صلاح الدین کو مطلع کیا تو انہوں نے کہا ’’چونکہ ہم قارئین کو تحریریں زیادہ پڑھانا چاہتے ہیں، اس بنا پر اشتہارات کا اتنا بڑا حجم قبول نہیں کر سکیں گے۔‘‘ (تکبیر میں اس مقصد کے تحت کورٹ نوٹسز کی اشاعت بھی ممنوع تھی) میں نے اپنے کمیشن کے لالچ میں اور تکبیر سے محبت کی حرص میں، پنجاب کے اشتہارات صرف پنجاب میں فروخت ہونے والے تکبیر کے الگ ایڈیشن میں شائع کرنے کی تجویز پیش کی۔ (اس قسم کی پریکٹس عالمی معیار کے اکثر جرائد میں دیکھی گئی ہے) میری تجویز پر محمد صلاح الدین شہید کا جواب میرے نزدیک سنہری حروف میں لکھے جانے کے لائق ہے۔ انہوں نے کہا: ’’قربان صاحب! آپ تو صریح دھاندلی کی ترغیب دے رہے ہیں۔ آپ ہی بتائیں یہ دھاندلی نہیں تو اور کیا ہے؟‘‘
شہید سے وابستہ یادوں کے حوالے سے ایک واقعے کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے ’’یہ ان دنوں کی بات ہے جب اس وقت کے صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے انتخابی مہم کیلئے چار دیوری کے اندر محدود سیاسی اجتماعات کی اجازت دے رکھی تھی۔ ان میں لائوڈ اسپیکر کے استعمال کی بھی اجازت نہیں تھی۔ میں نے ’’تکبیر‘‘ کیلئے لاہور سے اپنے مکتوب میں ان انتخابات کو ’’گونگے بہرے انتخابات‘‘ کا عنوان دیا۔ تکبیر میں اس مکتوب کو نمایاں طور پر شائع کیا گیا تھا۔ اس شمارے کے ٹائٹل پیج پر دو کارٹون بنائے گئے، ایک کے کانوں اور دوسرے کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر جلی حروف میں کیپشن لگایا ’’یہ گونگے بہرے انتخابات‘‘ تکبیر کے اداریے اور شہید محمد صلاح الدین کے تجزیئے میں بھی انتخابی مہم کو بھونڈے انداز میں پابند کرنے پر سخت تنقید کی گئی تھی۔ اسی دوران ایک روز صدر محمد ضیاء الحق لاہور کے دورے پر آئے۔ ایئرپورٹ پر ایک نیوز کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ معمول کے مطابق پی آئی ڈی کی طرف سے مجھے بھی مدعو کیا گیا۔ صدر کی نیوز کانفرنس میں جو رپورٹر شریک ہوئے، میں ان میں سب سے جونیئر تھا۔ میں سینئرز کی موجودگی میں صاحب نیوز کانفرنس میں سوال کرنے سے بالعموم گریز کرتا تھا۔ اس روز میں نے طے کر رکھا تھا کہ آج کوئی سوال نہیں کروں گا، مگر ضیاء الحق نے اپنے افتتاحی کلمات ہی میں ’’تکبیر‘‘ پر برسنا شروع کر دیا۔ میں نے کسی بھی نیوز کانفرنس یا تقریب میں صدر کو اس قدر اشتعال میں پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ بعد میں مجھے احساس ہوا کہ غالباً اس نیوز کانفرنس کا اہتمام ہی ’’تکبیر‘‘ پر غصہ نکالنے کیلئے کیا گیا ہے۔ انہوں نے چھوٹتے ہی کہا ’’حضرات! ملک میں اس وقت جو انتخابی مہم چل رہی ہے، اس کے متعلق آپ لوگوں کا کیا خیال ہے ؟ کیا اس جیسی پر امن مہم آپ نے پہلے کبھی دیکھی ہے؟‘‘ اس پر بعض جی حضوریوں نے کہا ’’یہ انتخابی مہم نہایت پرامن ہے، اسے اس طرح جاری رہنا چاہئے۔‘‘
صدر ضیاء الحق مزید شیر ہو گئے۔ غصے سے مغلوب کانپتی آواز میں کہنے لگے ’’مگر وہ پرچہ آپ نے دیکھا ہے، جو کراچی سے نکلتا ہے … تکبیر … اس میں ایڈیٹر صاحب لکھتے ہیں ’’گونگے بہرے انتخابات‘‘ صدر ضیاء نے اس مرحلے پر ’’ڈان‘‘ کے جناب نثار عثمانی کو مخاطب کر کے کہا ’’یہ لوگ دراصل امن چاہتے ہی نہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ خون خرابہ ہو، قتل و غارت ہو اور اگر معصوم لوگوں کا خون نہ بہے تو اس قسم کے صحافیوں کو مزہ نہیں آتا۔ آپ نے ’’تکبیر‘‘ پڑھا ہے۔ اس کے صفحہ اول پر لکھا ہے کہ یہ انتخابات گونگے اور بہرے ہیں۔‘‘ نثار عثمانی صاحب نے صدر کی ہاں میں ہاں نہیں ملائی، کیونکہ وہ خود بھی انتخابی مہم کے اس انداز کے خلاف رائے رکھنے والے صحافیوں میں شامل تھے۔
یہ منظر دیکھ کر میں نے صدر سے سوال نہ پوچھنے کا فیصلہ واپس لے لیا اور پے در پے سوالات کئے۔ اس دوران میرا بھی رویہ متوازن نہ رہا تھا۔ بعد میں محسوس کیا میں نے بعض سوالوں کے دوران بچوں جیسا انداز اختیار کیا تھا۔ ملکی آئین کے ساتھ صدر ضیاء نے جو حسن سلوک روا رکھا۔ ایک سوال کے جواب میں صدر نے اس کی توضیح کرتے ہوئے کہا ’’ہم نے آئین توڑا نہیں، اسے کالعدم قرار نہیں دیا ہے، اسے یوں سمجھ لیجئے کہ ملتوی کیا گیا ہے۔ آئین زندہ ہے مگر محفوظ کر لیا گیا ہے۔ موزوں وقت آنے پر زیر عمل لے آئیں گے۔ آئین کی اس وقت جو پوزیشن ہے، اسے بیان کرنے کیلئے مجھے موزوں لفظ یاد نہیں آ رہا۔ میں نے صدر کی نادانی یا لاعلمی کا احساس دلانے کے انداز میں کہا ’’جناب صدر! آپ کو کہنا چاہئے۔‘‘
Constiitution has been kept in abeyance. قارئین اندازہ کر سکتے ہیں، میرا مقصد صدر کی تصحیح یا اپنا علم بگھارنا ہر گز نہیں تھا، بلکہ میں تو دل کی بھڑاس نکال رہا تھا۔ صدر محترم نے غصے اور بیزاری ملے احساس کے تابع انداز میں کہا ’’ہاں، ہاں ۔ یہی درست ہے۔ وکلاء بھی یہی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ In abey ance ‘‘۔
بہر حال یہ نیوز کانفرنس ناخوشگوار انداز میں شروع ہوئی اور قریباً آخر تک ماحول ناخوشگوار ہی اور مدیر تکبیر جناب محمد صلاح الدین صدر کے عتاب کا ہدف بنے رہے۔ فون پر رابطہ کر کے نیوز کانفرنس کی تفصیل عرض کر دی اور کہا ’’صدر مملکت تکبیر پر بے حد برہم تھے اور دوران نیوز کانفرنس میں خلاف معمول اشتعال سے مغلوب رہے۔‘‘ مدیر تکبیر نے مخصوص مہذب، مدھم اور نرم و ملائم انداز میں کہا ’’کچھ زیادہ ہی ناراض ہو گئے تھے کیا؟‘‘
’’ جی ہاں! زیادہ ہی کہنا چاہئے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ انہوں نے کہا ’’کیا آپ اس نیوز کانفرنس کی رپورٹ آج ہی بھجوا سکتے ہیں، بلکہ فون پر مجھے ہی لکھوا دو۔‘‘ اس روز آخری کاپی پریس جا رہی تھی۔ میں نے شہید کے حکم کی تعمیل میں انہیں رپورٹ لکھوا دی جو زیر ترتیب شمارے ہی میں شائع کر دی گئی۔ اگلے روز جب تکبیر کا تازہ شمار دیکھا تو اس میں نصف صفحے پر یہ مختصر رپورٹ شائع کر دی گئی اور اس رپورٹ کے ساتھ وہ ٹائٹل دوبارہ چھاپ دیا گیا جو صدر مملکت کے عتاب کا موجب بنا تھا۔‘‘ ٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More