اقوام متحدہ اور بھارتی حکومت نے بھی اس جزیرے کو اسی لئے نوگو ایریا قرار دے رکھا ہے، تاکہ قدیم انسانوں کی طرح رہنے والے ان انسانوں کو تحفظ دیا جاسکے، اب جب امریکی شہری نے عیسائیت پھیلانے کے چکر میں وہاں جانے کا ایڈونچر کیا اور مارا گیا، تو اس کی لاش لانے کا مسئلہ کھڑا ہوگیا، بھارت نے لاش کا کھوج لگانے کے لئے جزیرے کا ہیلی کاپٹر سے فضائی جائزہ لیا تو جیسے ہی ہیلی کاپٹر تھوڑی نچلی پرواز کرتا، قدیم انسانوں کی زندگی گزارنے والے یہ قبائلی نیزے لہرا کر مقابلے کا عزم ظاہر کرتے، یہی کچھ انہوں نے جزیرے کے قریب جانے والی ایک کشتی کے ساتھ بھی کیا، جو واپس ہوگئی۔
اب عالمی اداروں اور بھارت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ امریکی شہری کی لاش کی تلاش کے لئے کوئی مہم جوئی نہیں کی جائے گی، کیوں کہ اگر اس جزیرے پر باہر سے انسان گئے، تو خدشہ ہے کہ ان میں موجود مختلف وائرس ان ڈیڑھ سو قبائلیوں کو لپیٹ میں لے لیں گے اور وائرس کا شکار ہوکر یہ قبائلی مر جائیں گے۔ ان کی آبادی ہی نہیں، ان کے ساتھ انسانی تاریخ کا ایک باب بھی ختم ہو جائے گا، کیوں کہ انسانوں سے دور رہنے والے ان قبائلیوں میں موجودہ دور کے انسانوں میں پائے جانے والے وائرسز کے لئے قوت مدافعت موجود نہیں ہے۔ وہ ہماری طرح کے انسان تو ہیں، لیکن آج کے انسانوں میں موجود بیماریوں سے محفوظ ہیں، یعنی دوسرے لفظوں میں عالمی اداروں نے یہ اعتراف کرلیا ہے کہ آج کے انسان کا جسم اتنا زہریلا ہو چکا ہے کہ وہ ایسے انسانوں کے لئے موت کا سبب بن سکتا ہے، جو اس کے آبائو اجداد کی طرح رہتے ہیں۔
ہماری دنیا میں تو ادویات بیچنے کے لئے بیماریاں ایجاد کی جاتی ہیں، جبکہ یہ قبائلی اب بھی فطری زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ انسان کے وجود کو وائرسز کے ذریعے اتنا زہر آلود کسی اور نے نہیں، بلکہ خود انسان نے ہی کیا ہے۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ دنیا میں پھیلنے والی بیماریوں کا بڑا حصہ ادویات ساز کمپنیاں پھیلاتی ہیں، اسی لئے آپ سنتے ہیں کہ ہر برس دنیا کے کسی نہ کسی حصے میں اچانک کوئی وبا پھیلنے کی خبر آتی ہے اور پھر یہ وبا دوائیاں بنانے والی ان کمپنیوں کا کاروبار چمکا دیتی ہے۔ ان کمپنیوں کا کاروبار تو چکمتا ہی انسانوں کے امراض پر ہے۔ پھر مٹی کی جگہ پلاسٹک سمیت مختلف دھاتوں کے استعمال اور آلودگی نے بھی انسان کے مدافعتی نظام کو بہت کمزور کر دیا ہے۔
جینٹک انسانوں کے ساتھ مصنوعی ذہانت اور اس کے حامل روبوٹ بھی انسان کے لئے بڑا خطرہ ہیں۔ دنیا کے ایک بڑے سائنسدان آنجہانی اسٹفین ہاکنگ بھی انسانی وجود کو لاحق جن خطرات کا ذکر کیا تھا اور انسانوں کو ان سے دور رہنے کا کہا تھا، ان میں مصنوعی ذہانت شامل تھی، لیکن آپ دیکھئے اس کے باوجود مصنوعی ذہانت پر دنیا میں دھڑا دھڑ کام ہو رہا ہے۔ جاپان میں تیزی سے کم ہوتی آبادی کا حل تو یہ ہونا چاہئے تھا کہ وہ اپنے عوام کو بچوں کی پیدائش کی طرف راغب کرتے، انہیں افرادی قوت درکار ہے تو غیر ملکیوں کے لئے دروازے کھولتے، لیکن اس کے برعکس جاپانی بھی مصنوعی ذہانت والے روبوٹ بنانے پر توجہ دے رہے ہیں، یعنی انسانی بچوں کی جگہ وہ مصنوعی ذہانت والے روبوٹ پیدا کرنے میں لگے ہوئے ہیں، اس سے بھی خطرناک بات یہ ہے کہ امریکہ سمیت بعض بڑی طاقتیں مصنوعی ذہانت کا جنگی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی طرف جا رہی ہیں۔ کوئی یہ نہیں سوچ رہا کہ فلموں کی طرح اگر حقیقت میں یہ روبوٹ ایک دن انسانوں کے کنٹرول سے باہر ہوگئے، کسی وائرس نے انہیں پاگل کردیا تو وہ اس دنیا میں کتنی بڑی تباہی کا سبب بنیں گے، وہ انسانیت کے لئے کتنا بڑا خطرہ بن جائیں گے، یہ تو وہ خطرات ہیں، جو انسان اپنے ہاتھوں سے اپنے لئے پیدا کر رہا ہے، اس کے ساتھ سائنسی دنیا میں شمسی طوفان کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر ایسا کوئی طوفان آیا تو پورا مواصلاتی نظام بیٹھ جائے گا۔ دنیا ایک جگہ رک سی جائے گی، رابطے کٹ جائیں گے، بجلی گھر ہوں یا ایٹمی پلانٹ، سب کام کرنا چھوڑ دیں گے، طیارے فضا میں ہوں یا جہاز سمندر میں، اپنا راستہ بھول جائیں گے، کیا انسان نے ایسے کسی منظر نامے کیلئے تیاری کر رکھی ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے اور شاید اس سے نمٹنے کی تیاری کرنا ممکن بھی نہ ہو، کیوں کہ شمسی طوفان تبھی آئے گا جب ہم انسان خالق کو بہت زیادہ ناراض کردیں اور قدرتی آفت سے تو انسان آج تک نمٹ پایا اور نہ پائے گا، یہاں تو دنیا کی سپر طاقت امریکہ سے کیلی فورنیا کی ایک آگ نہیں بجھ پا رہی، بلکہ اب تو اس آگ کو بھی دنیا میں ایک بڑی تباہی کے آغاز کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، کیلی فورنیا میں لاکھوں ایکڑ پر پھیلا جنگل جل رہا ہے، جنگلی حیات کی نایاب ترین نسلیں اور دنیا میں پائی جانے والی ان کی انتہائی محدود اقسام لقمہ اجل بن چکی ہیں، اربوں ٹن کی لکڑی، حشرات، انمول نسل کے پرندے اور صدیوں پرانے درخت جل کے کوئلہ بن چکے ہیں۔ اسے امریکہ کے وجود سے لے کر اب تک کی سب سے بڑی اور بھیانک آگ قرار دیا جا رہا ہے۔آگ ساڑھے 18 لاکھ ایکڑ سے زائد کے علاقے کو نگل چکی ہے، امریکہ ہی نہیں دنیا کے مختلف ممالک سے ریسکیو ٹیمیں اسے بجھانے میں لگی ہیں۔ کئی ہفتوں بعد اب جاکر کہیں کچھ قابو پایا گیا ہے، لیکن اس دوران ہوا میں کاربن اور ہیلیم کی مقدار میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے اور سانس لینے میں لوگوں کو مشکلات پیش آرہی ہیں۔ ماہرین اس آگ کو ماحولیاتی تباہی کہہ رہے ہیں، یعنی آگ پر قابو پالینے کے بعد بھی دنیا کے موسموں پر اس کے خطرناک اثرات پڑسکتے ہیں۔ گرمیوں کا دورانیہ بڑھ سکتا ہے، جس سے گلیشیر پگھلنے کی شرح میں اضافہ ہوگا۔ سمندر میں چلنے والی ہواوں میں گیسز کے ملنے سے نئے مرکب تیار ہو رہے ہیں، جن کے نتیجے میں ایشیاء اور افریقہ کے کچھ حصوں میں بھی تیزابی بارشوں کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو فصلیں برباد ہو جائیں گی۔
Prev Post
Next Post