یوں تو محمد صلاح الدین شہیدؒ پر ایک ضخیم کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ صحافت میں آنے سے قبل کراچی میں رزق حلال کیلئے وہ شبانہ روز محنت کرتے تھے، جس کا تذکرہ وہ پورے وقار اور سچائی کے ساتھ کرتے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی فرد کسی شعبے میں بلند ترین مقام پر پہنچتا ہے تو وہ اپنے ابتدائی ایام کی کم مائیگی کو چھپاتا ہے، مگر محمد صلاح الدینؒ ایسے نہ تھے۔ انہیں یہ بتانے میں کوئی عذر مانع نہ تھا کہ انہوں نے ابتدائی زندگی محنت مزدوری کرتے گزاری، پھر وہ صحافت میں آئے تو جسارت ملتان سے کام کا آغاز کیا۔ 70ء میں اخبارات میں ملک گیر ہڑتال ہوئی تو پی ایف یو جے کا کہنا تھا کہ جن اخبارات کی اشاعت کو دو برس مکمل نہیں ہوئے، وہ ہڑتال کے دوران اپنی اشاعت جاری رکھ سکتے ہیں، مگر جب صحافیوں کا جلوس جسارت ملتان پہنچا تو محمد صلاح الدینؒ اپنی برادری سے یکجہتی کے اظہار کی خاطر ہڑتال میں شامل ہو گئے۔
محمد صلاح الدین شہید اپنی ذات میں ایک ادارہ تھے۔ بڑوں کا احترام، چھوٹوں سے شفقت اور محبت اپنے ساتھیوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے ہمہ وقت مستعد اور ہر قربانی دینے کیلئے تیار و آمادہ۔ جسارت کراچی کے مدیر بنے تو ان کے ساتھ کام کرکے ایک عجیب طرح کی طمانیت ملتی۔
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مؤمن
وہ اس شعر کی عملی تصویر تھے۔ طویل ہمسفری میں کوئی لمحہ ایسا نہیں آیا، جب انہیں اپنے ساتھیوں کیلئے بڑے سے بڑے جابر کے سامنے سینہ سپر نہیں دیکھا۔ مجھے یاد ہے میں نے ایک خبر اسلام آباد سے بھیجی۔ خبر صحیح تھی، مگر مارشل لاء حکومت کو ناگوار گزری اور میری گرفتاری کا حکم صادر ہوا۔ محمد صلاح الدین شہید کو بتایا گیا تو ماشل لاء حکام سے ملے اور کہا خبر شائع کرنا نہ کرنا میری مرضی کے تابع ہے، گرفتار کرنا ہے تو مجھے کیجئے۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دور میں جسارت بند رہا اور محمد صلاح الدین جیل میں رہے۔ بھٹو مرحوم کا دور ختم ہوا تو جسارت کا دوبارہ اجرا ہوا اور یکم ستمبر کو پہلا شمارہ مارکیٹ میں آیا۔ یہی دن تھا کہ جنرل ضیاء الحق کی پہلی پریس کانفرنس بھی ہوئی، جس میں محمد صلاح الدین شہید شریک ہوئے۔
محمد صلاح الدین حکومت کی دعوت پر یا ذاتی دورے پر اسلام آباد تشریف لاتے تو اپنے ایک عزیز شبیر نظامی کے یہاں قیام کرتے۔ حالانکہ محکمہ اطلاعات ہمہ وقت مدیران جرائد کو فائیو اسٹار ہوٹلوں میں قیام کا بندوبست کرنے پر آمادہ رہتا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں اخبارات پر سنسر لگا تو یہ ہدایت جاری ہوئی کہ جو خبر یا تحریر سنسر کی زد میں ہیں، وہ
جگہ خالی نہ چھوڑی جائے، مگر جسارت واحد اخبار تھا، جو خالی جگہ چھوڑتا اور اس حکم کی تعمیل سے گریز کرتا۔ سنسر کے دوران جنرل ضیاء الحق نے مدیران جرائد کو ملاقات کیلئے بلایا تو اس ملاقات میں شرکت سے معذرت کرلی اور صدر مملکت کو خط لکھا کہ ’’میں فی الحال ایک معطل مدیر ہوں ’’اصل‘‘ مدیر وہ سنسر افسر ہے، جو اخبار میں کسی خبر کے شائع ہونے نہ ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔ جب سنسر ختم ہو جائے گا تو ملاقات کیلئے حاضر ہوں گا۔ جسارت کے اسلام آباد بیورو نے یہ خط صدر مملکت تک پہنچانے سے قبل اس کی فوٹو اسٹیٹ کاپیاں تمام اخبارات میں تقسیم کیں۔ یہ بات صدر مملکت سے کیسے مخفی رہ سکتی تھی۔ جب سنسر ختم ہوا تو محمد صلاح الدین نے ایک اور خط لکھا، جس میں ملاقات کیلئے آنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ اتفاق سے جس دن یہ خط ملا، صدر مملکت کسی دورے پر جا رہے تھے۔ میں نے ہوائی اڈے پر یہ خط ان کے حوالے کیا۔ مختصر سا خط پڑھ کر ضیاء الحق مسکرائے اور استفسار کیا کہ کیا یہ خط بھی آپ نے تقسیم کیا ہے؟
محمد صلاح الدین شہیدؒ کی جرأت اظہار کا ایک واقعہ ذہن میں گھومتا ہے۔ یہ غالباً ان کی جنرل ضیاء الحق سے آخری ملاقات تھی۔ میں بھی حاضر تھا وہاں۔ جنرل صاحب نے طویل گفتگو کے بعد استفسار کیا ’’جناب کوئی کام؟‘‘ محمد صلاح الدین شہیدؒ نے کہا: جناب کام تو کوئی نہیں، ایک گزارش ہے۔ ’’جی فرمائیں‘‘۔ ’’جنرل صاحب بہت وقت گزر گیا اب انتخابات کرا دیں اور ملک کو مارشل لاء سے نجات دلائیں۔‘‘ جسارت سے محمد صلاح الدین کے استعفے کی خبر بھی صحافیوں کو جنرل ضیاء الحق نے سنائی۔ قومی اسمبلی کا اجلاس ہو رہا تھا کہ مخدوم جاوید ہاشمی ایوان میں داخل ہوئے اور محمد صلاح الدین کی شہادت کی المناک خبر سنائی۔
جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا
٭٭٭٭٭