خوف کی تلوار نے بیوروکریسی کو مفلوج کردیا

0

امت رپورٹ
ملکی بیورو کریسی تاریخ کے تلخ ترین تجربات سے گزر رہی ہے۔ خوف کی تلوار اور دیگر معاملات نے اس وقت بیورو کریسی کو عملاً مفلوج کر رکھا ہے۔ اس کے نتیجے میں بہت سے اہم وفاقی محکموں میں فائلوں کے ڈھیر لگ چکے ہیں۔ تیس برس سول سروسز میں گزارنے والے ایک سابق اعلیٰ افسر کے بقول بیورو کریسی کو کسی بھی ملک میں ریڑھ کی ہڈی قرار دیا جاتا ہے کہ حکومت کی مشینری چلانے میں سول سروسز کے افسران کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ لہٰذا بیورو کریسی کے مفلوج ہونے کا سیدھا مطلب حکومتی مشینری کا جام ہونا ہے۔ اس وقت کم و بیش یہی صورت حال ہے۔ اور اس سلسلے کا آغاز پی ٹی آئی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے کچھ عرصے بعد ہی ہو گیا تھا۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے اندرونی معاملات تک رسائی رکھنے والے ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ جس طرح محض الزامات پر بعض اعلیٰ سرکاری افسروں کو انکوائری کے نام پر تذلیل کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، اس کے سبب سینئر اور جونیئر بیورو کریٹس میں حد درجہ خوف پایا جاتا ہے۔ متعدد سینئر بیورو کریٹس نے اس بنیاد پر اہم عہدے حاصل کرنے سے گریز کیا اور کر رہے ہیں کہ وہ اپنی تذلیل نہیںچاہتے۔ ملکی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے، جب سینئر بیورو کریٹس بالخصوص مالی معاملات اور بڑے پروجیکٹس سے متعلق پوسٹیں لینے سے کترا رہے ہیں۔ حالانکہ ہر دور میں ایسی اہم پوسٹوں کے لئے سفارشیں کرائی جاتی تھیں۔ ذرائع کے بقول گریڈ سترہ سے لے کر گریڈ بائیس تک کے افسروں میں خوف، بے دلی اور بے یقینی کے چار بنیادی اسباب ہیں۔ اول، کسی نادانستہ غلطی یا دستخط کے سبب نیب انکوائری کا خدشہ۔ دوئم، سیاسی مداخلت۔ سوئم، اقربا پروری۔ چہارم، متعلقہ وزرا کی نااہلی، اور پنجم اعلیٰ حکومتی ذمہ داران یا وزرا کا ناروا سلوک۔ ان تمام عوامل نے مل کر ملک کی بیورو کریسی کو عملاً مفلوج کر رکھا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ موجودہ صورت حال میں اب تک بائیس اور بیس گریڈ کے کم از کم چار اعلیٰ بیورو کریٹس نے دل برداشتہ ہو کر اپنے استعفے پیش کر دیئے تھے۔ تاہم بعد میں انہیں منا لیا گیا۔ اہم شعبے سے وابستہ بائیس گریڈ کے ایک وفاقی سیکریٹری کو کچھ عرصہ پہلے وزیراعظم عمران خان نے بلا کر کہا کہ ’’ تمہارے محکمے میں کرپشن بہت زیادہ ہو رہی ہے‘‘۔ جس پر مذکورہ وفاقی سیکریٹری کا کہنا تھا کہ ’’آپ ثبوت دیں تو میں کارروائی کروں گا‘‘۔ تاہم جب وزیراعظم کا اصرار بڑھتا چلا گیا اور گفتگو میں کچھ گرمی آ گئی تو وفاقی سیکریٹری ساتھ والے کمرے میں گیا اور تھوڑی دیر بعد یہ کہہ کر اپنا استعفیٰ پیش کر دیا کہ وہ اس صورت حال میں کام نہیں کر سکتا۔ تاہم اس وفاقی سیکریٹری کے ایک قریبی دوست نے بتایا کہ بعد میں سینئر بیورو کریٹ کو منا کر استعفیٰ واپس لینے پر آمادہ کر لیا گیا۔ کیونکہ یہ فیڈرل سیکریٹری شاندار کیریئر کا حامل ہے۔ اور آج تک کسی الزام کی زد میں نہیں آیا۔
پاکستانی سول سرونٹ کے لئے گریڈ بائیس ایک اعلیٰ ترین درجہ ہے۔ گریڈ بائیس کا عہدہ تھری اسٹار فوجی افسر (لیفٹیننٹ جنرل) کے مساوی ہوتا ہے۔ اور اسے ملک کے بااثر ترین افراد میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ بائیس گریڈ کے افسر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں کام کرنے والے پانچ ہزار سے زائد سول سرونٹس اور بیورو کریٹس میں سے صرف 50 کے قریب افسر گریڈ بائیس کا رینک رکھتے ہیں۔ اس تعداد میں کمی و بیشی ہوتی رہتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے 2015ء میں شائع فہرست کے مطابق گریڈ بائیس کے 39 وفاقی سیکریٹریز میں سے 26 کا تعلق صوبہ پنجاب سے تھا۔ بڑا صوبہ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ سے فیڈرل سیکریٹریوں کی بڑی تعداد کا تعلق پنجاب سے رہا ہے۔ لہٰذا اس وقت تلخ تجربات کا سامنا کرنے والے بیشتر سینئر ترین سرکاری افسروں کا تعلق اسی صوبے سے ہے۔
وفاقی دارالحکومت میں موجود معتبر ذرائع کے مطابق قریباً دو ماہ پہلے ایک اور بائیس گریڈ کے اعلیٰ بیورو کریٹ نے بھی کامرس، ٹیکسٹائل انڈسٹری اینڈ پروڈکشن اور انویسٹمنٹ کے مشیر عبدالرزاق دائود کے رویہ پر دلبرداشتہ ہو کر مستعفی ہونے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اس سرکاری افسر کو بھی بعد میں منا لیا گیا۔ تاہم انڈسٹری اینڈ پروڈکشن سے وابستہ مذکورہ سینئر بیورو کریٹ نے عبدالرزاق دائود کے ماتحت کام کرنے سے انکار کیا۔ لہٰذا اس کا تبادلہ نیشنل سیکورٹی ڈویژن میں کر دیا گیا۔ اس معاملے سے آگاہ ذرائع نے بتایا کہ عبدالرزاق دائود مذکورہ بیورو کریٹ سے کچھ ایسے سوالات کر رہے تھے، جس پر سینئر سرکاری افسر نے کہا کہ ’’ آپ میرا اس طرح انٹرویو کر رہے ہیں جیسے نوکری لینے آیا ہوں۔ میں نے تیس برس ڈی ایم جی میں گزارے ہیں۔ اس طرح کے سلوک پر کام نہیں کر سکتا لہٰذا میرا استعفیٰ منظور کیا جائے‘‘۔ تاہم اس بیورو کریٹ کو بھی منا کر استعفیٰ منظور کرنے کے بجائے تبادلے پر اکتفا کیا گیا۔ واضح رہے کہ جون 2012ء سے قبل پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس (پی اے ایس) ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ (ڈی ایم جی) کہلاتا تھا۔
مشکل حالات کا سامنا صرف گریڈ بائیس یا اکیس کے اعلیٰ بیورو کریٹس کو ہی نہیں۔ موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے کے صرف ایک ماہ بعد ہی گریڈ بیس کے ایک سینئر بیورو کریٹ حنیف گل نے بھی یہ کہہ کر وزیر ریلوے شیخ رشید کی ماتحتی میں کام کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ وفاقی وزیر ریلوے نان پروفیشنل اور بداخلاق ہیں۔ یہ معاملہ اس وقت میڈیا میں کافی ہائی لائٹ ہوا تھا۔ ذرائع کے بقول حنیف گل نے یہ باغی رویہ اپنے ایک سینئر افسر اشفاق خٹک کے ساتھ وزیر ریلوے کے ناروا سلوک پر اپنایا تھا۔
اسلام آباد میں موجود ذرائع نے بتایا کہ جہاں ایک طرف احتساب کے نام پر تذلیل سے خوف زدہ متعدد سینئر بیورو کریٹس اہم عہدے لینے سے گریزاں ہیں تو وہیں جن سینئر بیورو کریٹس نے بحالت مجبوری اہم پوسٹیں لے لی ہیں، وہ بالخصوص مالی معاملات اور بڑے پروجیکٹس سے متعلق فائلوں پر دستخط کرنے سے کترا رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں فائلیں آگے جانے سے رکی ہوئی ہیں۔ اور بعض محکموں میں ان فائلوں کا ڈھیر لگ چکا ہے۔ اسی طرح کی صورت حال بیان کرتے ہوئے ایک وفاقی سیکریٹری کے قریبی عزیز نے بتایا کہ مذکورہ فیڈرل سیکریٹری کے دفتر میں بھی فائلوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔ یہ فائلیں دیوار کے ساتھ تین قطار میں چھ فٹ بلند ہو چکی ہیں۔ اور منظوری کے لئے وفاقی سیکریٹری کے دستخط کی محتاج ہیں۔ تاہم متعلقہ وزیر کی عدم دلچسپی اور کسی حتمی فیصلے پر نہ پہنچنے کے سبب وفاقی سیکریٹری اپنی صوابدید پر فائلوں پر سائن کرنے سے گریزاں ہے۔ موجودہ حالات میں کام کرنے سے بیورو کریسی کی بیزاری کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ قریباً تین روز قبل ’’امت‘‘ کا ایک ذریعہ ایک وفاقی سیکریٹری کے ساتھ بیٹھا تھا کہ اتنے میں ایک وفاقی وزیر وہاں آ گیا، اور اس نے وفاقی سیکریٹری کو کہا کہ ’’آج ایک اہم میٹنگ تھی اور آپ کو مدعو بھی کیا گیا تھا اس کے باوجود آپ نہیں آئے‘‘۔ جس پر وفاقی سیکریٹری کا کہنا تھا کہ وہ ایک ضروری کام کی وجہ سے حاضر نہیں ہو سکا۔ ذریعے کے بقول جیسے ہی وفاقی وزیر کمرے سے باہر نکلا تو فیڈرل سیکریٹری نے اسے کہا کہ ’’اجلاس اٹینڈ کرنے کا کیا فائدہ، محض وقت ضائع کیا جاتا ہے۔ کسی نتیجے پر نہیں پہنچا جاتا۔ کوئی مشورہ دیا جائے تو سنا نہیں جاتا۔ لہٰذا میں جان بوجھ کر میٹنگ میں نہیں گیا تھا‘‘۔ وفاقی دارالحکومت میں موجود ذرائع نے بتایا کہ جس طرح آئے روز پے در پے تبادلے کئے جا رہے ہیں اور بعض جگہوں پر ایک اہم شخصیت کی ایما پر، جس کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں، پوسٹنگیں کی جا رہی ہیں۔ اس پر بھی بیورو کریسی میں بے یقینی پائی جاتی ہے۔ لاہور کی خاتون ڈی سی کی پوسٹنگ بھی ایک ایسی ہی سفارش پر ہوئی۔ جبکہ فواد حسن فواد اور احد چیمہ جیسے سینئر بیورو کریٹس کے ساتھ ہونے والے سلوک نے بھی بیورو کریٹس کو خوفزدہ کر رکھا ہے۔
بیورو کریسی میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے۔ اس بارے میں ایک موقر انگریزی اخبار نے بھی کچھ عرصہ پہلے چشم کشا رپورٹ شائع کی تھی۔ اخبار نے لکھا کہ نون لیگ کی سابق حکومت کے ساتھ کام کرنے والے متعدد بیورو کریٹس کو سائیڈ لائن کر دیا گیا ہے۔ یا وہ خود ہی اہم فیصلہ ساز عہدوں پر کام کرنے سے گریزاں ہیں کہ مبادہ بعد میں انہیں عدالتوں میں بے عزتی یا نیب انکوائریوں کا سامنا نہ کرنا پڑ جائے۔ مذکورہ اخبار سے آف دی ریکارڈ بات کرتے ہوئے متعدد سینئر اور جونیئر بیورو کریٹس نے اپنا دل کھول کر رکھ دیا۔ ان میں ہی شامل پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے ایک اعلیٰ افسر کا کہنا تھا کہ ’’انسان سے بھول چوک ہو سکتی ہے۔ تاہم نادانستگی میں ہونے والی غلطی اور کرمنل سوچ کے ساتھ ارادتاً کئے جانے والے عمل میں فرق ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے موجودہ حکومت ان دونوں باتوں میں فرق کرنے کے بجائے اسے ایک ہی چیز سمجھتی ہے۔ میں نے یہ اعلیٰ سروس عزت کے ساتھ خدمات انجام دینے کے لئے جوائن کی تھی۔ اور ایک صاف ستھرا سروس ریکارڈ رکھتا ہوں۔ لیکن اس کے باوجود میں اب بڑے فیصلے کرنے یا بڑے پیمانے پر رقوم جاری کرنے والے کسی ادارے سے وابستہ نہیں ہونا چاہتا۔ تاکہ ممکنہ بے عزتی اور تنقید سے بچ سکوں‘‘۔ اخبار مزید لکھتا ہے کہ عموماً یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی حکومت میں زیادتی کا نشانہ بننے یا نظرانداز کئے جانے والے بیورو کریٹس نئی حکومت آنے پر اعلیٰ پوسٹیں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاہم یہ پہلی بار ہو رہا ہے کہ ایسے بیورو کریٹس بھی نئے سیٹ اپ میں اہم پوسٹیں لینے سے کترا رہے ہیں، جنہیں نون لیگ کی سابق حکومت میں سائیڈ کر دیا گیا تھا۔ کیونکہ ان بیورو کریٹس کو اپنی تذلیل کا خوف ہے۔ ایسے ہی ایک سینئر بیورو کریٹ نے بتایا کہ شہباز شریف کی حکومت میں اسے کھڈے لائن لگایا گیا تھا۔ تاہم پنجاب کی نگراں حکومت کے دوران ایک اہم پوزیشن مل گئی۔ لیکن ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے کے موقع پر جس طرح اس وقت کے آئی جی پنجاب ڈاکٹر کلیم امام کی عدالت میں پیشی ہوئی۔ اس سے اس نے عبرت پکڑی اور اب کسی اہم پوسٹ کے بجائے معمولی سے عہدے کو ترجیح دی۔ مذکورہ بیورو کریٹ کا کہنا تھا کہ وہ اور اس جیسے دیگر سرکاری افسر، سب کرپٹ نہیں۔ لیکن پی ٹی آئی حکومت نے سب کو ایک ہی ڈنڈے سے ہانکنے کی جو پالیسی اختیار کر رکھی ہے، اس پر خوف زدہ ہیں۔ لہٰذا سائیڈ پر رہنے میں ہی اپنی عافیت سمجھ رہے ہیں۔ سرکاری افسر کے بقول وہ کرپٹ بیورو کریٹس کے احتساب کے خلاف نہیں، لیکن اس کے لئے پوری حکومتی مشینری کو دھمکی دینا مناسب نہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں گریڈ بائیس کے جن افسروں نے آگے چل کر بہت نام کمایا۔ ان میں قدرت اللہ شہاب، غلام اسحاق خان، روئیداد خان، عثمان علی عیسانی، طارق باجوہ، تسنیم نورانی، فواد حسن فواد، جلیل عباس جیلانی، ناصر درانی، نرگس سیٹھی، تہمینہ جنجوعہ اور فضل الرحمن قابل ذکر ہیں۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More