پی پی- لیگی قیادت کے خلاف قانونی شکنجہ مزید سخت

0

اسلام آباد(نمائندہ امت ) پیپلز پارٹی و نواز لیگ کی قیادت کیخلاف قانون کا شکنجہ مزید سخت ہوگیا۔سپریم کورٹ نےنیشنل بینک کو پیپلز پارٹی کے شریک سربراہ و سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی دوست انور مجید کے اومنی گروپ کیخلاف رہن رکھی گئی چینی غائب کرنے پر مقدمہ درج کرانے کی اجازت دے دی ہے ۔نیشنل بینک کے وکیل نے عدالت کو بعض سینیٹروں کے دباؤ اور بینک کے افسران کو دھمکیاں ملنے سے بھی آگاہ گیا ۔عدالت نےاومنی گروپ کی ملیں چلانے کیلئے ریسیور مقرر کرنے کا انتباہ بھی دیدیا ہے ۔سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں شہید خاتون کی بیٹی کی درخواست پر عدالت عظمیٰ نے پنجاب حکومت کو لیگی قائدین نواز شریف ،شہباز شریف سمیت 146 ملزمان کے خلاف نئی جے آئی ٹی بنانے کی اجازت دیدتے ہوئے اس کے نتائج منظر عام پر لانے و اسے ٹرائل کا حصہ بنانے کے احکامات جاری کر دیے ہیں ۔عدالت نےنئی جے آئی ٹی کے قیام پر سابق وزیر اعظم نواز شریف کے وکیل کا اعتراض مسترد کر دیا۔تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے بدھ کوجعلی کھاتوں کے ذریعے منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کی۔اس موقع پر نیشنل بینک کے وکیل نعیم بخاری نے عدالت کو بتایا کہ اومنی گروپ نے ملک کے سب سے بڑے اور قومی بینک کے پاس چینی کی سوا 2لاکھ بوریاں رہن رکھیں جنہیں بعد ازاں غائب کر دیا گیا ۔یہ فعل جرم کے زمرے میں آتا ہے۔چیف جسٹس نےاس پر قرار دیا کہ اگر نیشنل بینک اومنی گروپ کے ساتھ تصفیہ نہیں کرنا چاہتا تو وہ اومنی گروپ کے خلاف مقدمہ درج کرائے۔عدالت نے قرار دیا کہ اس ضمن میں ملی بھگت سے ہی کاغذی کارروائی کی گئی ہو گی، اس لیے بینک کے لوگوں کے خلاف بھی مقدمہ درج کرایا جائے۔نیشنل بینک کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اومنی گروپ پر مجموعی واجب الادا رقم 6 ارب روپے ہے ۔انہوں نے شکایت کی کہ بینک پر بعض سینیٹرز سے دباؤ آیا اور افسران کو سنگین دھمکیاں بھی مل رہی ہیں ۔اس پر چیف جسٹس نے قرار دیا کہ چینی کو غائب کرنے کے معاملے کی تفتیش سندھ پولیس نہیں بلکہ وفاقی تحقیقاتی ادارہ ایف آئی اے کرے گا۔شاہد حامد نے موقف اپنایا کہ اومنی گروپ قرضوں کے حوالے سے کسی کا نادہندہ نہیں ہے ، رہن شدہ چینی کے حوالے سے اسٹاک اوپر نیچے ہوا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم ملوں کو بند نہیں ہونے دیں گے، بہت لوگ موجود ہیں، ملوں کا انتظام کسی اور کے ہاتھ میں دے دیں گے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں آپ کو وہ آوازیں سنا دوں گا کہ کیسے جیل میں بیٹھ کر ہدایات دی جاتی رہی ہیں، اسی لیے ملزمان سے موبائل فون چھینے گئے،آپ کے موکل قانون سے بالا تر نہیں، ابھی جج بیٹھے ہوئے ہیں ۔ ادھر چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس فیصل عرب و جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل پر مشتمل 5رکنی لارجر بنچ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں شہید خاتون تنزیلہ کی بیٹی بسمہ کی جانب سے دوبارہ تحقیقات اور نئی جے آئی ٹی بنانے کی درخواست کی سماعت کی۔ اس ضمن میں نواز شریف، شہباز شریف ،حمزہ شہباز شریف،خواجہ آصف،چوہدری نثار، سعد رفیق ، رانا ثنا اللہ و گلوبٹ سمیت 146افراد کو نوٹس جاری کئے گئے تھے۔سماعت کے موقع پر نواز شریف کی نمائندگی ان کے وکیل نے کی ۔عوامی تحریک کے قائد طاہرالقادری نے خود پیش ہو کر دلائل دیتے ہوئے عدالت کو تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ مقدمہ درج نہ ہونے پر وہ اسلام آباد میں دھرنا دینے پر مجبور ہوئے ۔انہوں نے جے آئی ٹی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کسی مظلوم یا زخمی کا بیان ریکارڈ نہیں کیا گیا۔ ایسی تفتیش کو تفتیش کیسے کہا جا سکتا ہے؟ ۔ سانحہ میں یتیم ہونے والے کہتے تھے کہ ہمیں انصاف نہیں ملے گا۔ طاہر القادری نے گلو گیر لہجے میں کہا کہ کیا ہم فلسطینی تھے جو ہم پراسرائیلی فوج نے گولیاں چلائیں؟۔حکومت کے مطابق سانحہ کے روز 10 افراد شہید اور 71 زخمی ہوئے تھے جبکہ ہمارے اعداد و شمار کے مطابق 510 افراد زخمی کئے گئے ۔4برس ہمارے ملزم اقتدار میں تھے اور تفتیش کے تقاضے پورے نہیں کئے گئے ۔دوبارہ تفتیش میں بھی ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر کا ذکر نہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ پہلےروز بھی ٹرائل کا حکم دیا تھا۔ آپ نے دھرنا دیا لیکن عدالتوں میں نہیں آئے۔ عدالت سمیت ہر کام کو دھرنے سے مفلوج کر دیا گیا۔کیا یہ عدالت کی تکریم ہے؟، ججز کا بھی راستہ روکا گیا۔طاہر القادری کا کہنا تھا کہ جسٹس نجفی کمیشن کی رپورٹ بڑی مشکل سے ملی۔ اب لگتا ہے کہ انصاف کا دروازہ کھل گیا ہے۔اس پر نواز شریف کے وکیل نےجے آئی ٹی کے قیام کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ عوامی تحریک مشترکہ تحقیقات ٹیم میں پیش نہیں ہوتی رہی حالانکہ اس میں حساس اداروں کے لوگ شامل تھے۔ طاہر القادری نے جواب دیا کہ گرفتاریاں ہو رہی تھیں۔ جے آئی ٹی میں کون اور کیسے جاتا؟۔ بار بار کہا تھا کہ پنجاب حکومت اور وزیر اعظم ہمارے ملزم ہیں، کیا ڈی ایس پی وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ کے خلاف تفتیش کر سکتا ہے؟۔ الزام چاہے غلط ثابت ہو جائیں لیکن اس کی تفتیش ہونی چاہیے۔ بیریئر ہٹانے کیلئے ہمیں کوئی نوٹس نہیں ملا تھا۔حکومت کا اصل ایجنڈا ہمارے لانگ مارچ کو روکنا تھا۔ انہوں نے عدالتی استفسار پر بتایا کہ 157 گواہ تھے اور اب تک 23 گواہان کے بیان ہو چکے ہیں۔جسٹس آصف سعید نے کہا کہ مشتاق سکھیرا کو ملزم بنانے کے بعد تمام بیانات پھر لئے جائیں گے۔ طاہرالقادری کے بعد ان کی قانونی ٹیم نے بھی دلائل دیئے اور کہا کہ پہلی جے آئی ٹی پر اعتماد نہ ہونے کے سبب گواہ پیش نہیں ہوئے۔پنجاب حکومت کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب حکومت نے سانحہ ماڈل ٹاوٴن پر جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور وہ چاہتی ہے کہ واقعے کی شفاف تحقیقات ہوں۔عدالت میں موجود اٹارنی جنرل انور منصور نے نئی جے آئی ٹی بنانے کی مخالفت نہیں کی ۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More