ہائیڈ پارک
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو آپ کسی اور بات کا کریڈٹ دیں نہ دیں، یہ سہرا ان سے کوئی نہیں چھین سکتا کہ وہ دنیا کو ایک نئے طرز حکومت سے متعارف کرا رہے ہیں اور وہ ہے ٹوئٹر کے ذریعے حکومت۔ اس نئے طرز حکومت پر گینز بک کی انتظامیہ کو چاہئے کہ ٹرمپ کا نام اپنے ریکارڈ میں رجسٹرڈ کرلے، کیوں کہ یہ ریکارڈ تو ٹوٹنے کا بھی بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آتا، خارجہ پالیسی سے لے کر مختلف ملکوں کو دھمکانے اور اپنے اعلیٰ عہدیدار فارغ کرنے سے لے کر عدلیہ سے لڑائی تک، ٹرمپ سارے کام ٹوئٹر پر کر رہے تھے، لیکن اب انہوں نے اس سے بھی آگے بڑھ کر امریکی فوج کے سربراہ کے نام کا اعلان بھی پینٹاگون کی کسی سمری پر دستخط کرکے کرنے کے بجائے ٹوئٹ کے ذریعے کیا ہے اور آرمی چیف، جنرل مارک اے میلے کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف نامزد کرکے فوج کی سربراہی انہیں سونپنے کا اعلان کیا ہے۔ پینٹاگون اور وزیر دفاع جیمز میٹس کو تو نئے فوجی سربراہ کا علم ٹوئٹر کے ذریعے ہوا۔ امریکی میڈیا کہہ رہا ہے کہ پینٹاگون اور وزیر دفاع ایئر چیف کو نیا فوجی سربراہ بنانے کے خواہشمند تھے۔ اب لگتا ہے ٹرمپ بھی یہ بات جان گئے ہوں گے، اس لئے انہوں نے کسی کو موقع دیئے بغیر ٹوئٹ کے ذریعے ہی اپنی مرضی کے فوجی سربراہ کی نامزدگی کردی اور پینٹاگون کی خواہشات پر ٹوئٹر پر بہا دیں۔
بندہ سوشل میڈیا کا شوقین ہو اور وہ جعلی پوسٹوں سے دھوکہ نہ کھائے، یہ تو ممکن نہیں، اس لئے ٹرمپ بھی ایسا دھوکہ کھا گئے ہیں۔ یہ تو آپ کو پتہ ہی ہے کہ آج کل فرانس میں تیل قیمتوں میں اضافے کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے، حکومت نے تیل کے نرخ تو پرانے بحال کردیئے، لیکن لگتا ہے فرانسیسی عوام خاصے ویلے ہیں اور ہفتہ و اتوار کی چھٹی کے دن ان کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہوتا تھا، اب تیل قیمتوں کے خلاف انہوں نے دو تین ہفتے احتجاج کیا ہے، تو انہیں ہفتہ وار چھٹیوں کا نیا مصرف مل گیا ہے، سو اب وہ ہفتہ اور اتوار کو سڑکوں پر جلائو گھیرائو کے ذریعے چھٹی ’’انجوائے‘‘ کرتے ہیں۔ اس تحریک کو یلو یعنی زرد تحریک کا نام دیا گیا ہے، کام بھی وہ ایسے کر رہے ہیں کہ لگتا ہے پیرس جیسے خوبصورت شہر کو زرد کرکے ہی چھوڑیں گے۔ فرانسیسی حکومت کو ہمارا مشورہ ہے کہ وہ مزید زرد ہونے سے بچنا چاہتی ہے تو دو چھٹیاں ختم کردے، نہ لوگ ویلے ہوں گے اور ان کے دماغ میں احتجاج کا فتور آئے گا، یہ پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک میں ثابت شدہ کامیاب تجربہ ہے، یہاں عوام پر اتنا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے کہ ہفتے کے سات دن کام کرکے بھی ان کیلئے گھر چلانا مشکل ہوتا ہے، وہ کام میں لگے رہتے ہیں، اس لئے کوئی احتجاج کا سوچتا بھی نہیں۔ خیر ہم بات کر رہے تھے ٹرمپ کی، تو کسی نے برطانیہ میں بنی ہوئی ایک پرانی ویڈیو یہ کہہ کر ٹوئٹر پر شیئر کر دی کہ اپنی حکومت کے خلاف سراپا احتجاج فرانسیسی عوام ٹرمپ کو نجات دہندہ کے طور پر پکار رہے ہیں۔ بس پھر کیا تھا، ٹرمپ نے آئو دیکھا نہ تائو اور اس ویڈیو کو شیئر کردیا کہ دیکھو میری پالیسی کے تو فرانسیسی عوام بھی دیوانے ہیں، لیکن جب اصل حقیقت کھلی کہ یہ ویڈیو تو فرانس کی ہے ہی نہیں اور پرانی بھی ہے، تو دنیا کو ٹرمپ ہی دیوانے لگنے لگے۔ ٹرمپ اس شرمندگی پر کہاں خاموش رہنے والے تھے، سو انہوں نے فرانسیسی احتجاج پر ایک اور ٹوئٹر داغتے ہوئے اسے ماحولیاتی معاہدے کا شاخسانہ قرار دے دیا اور کہا کہ جب دنیا کے ماحول کو بچانے پر اتنی بھاری رقم فرانس خرچ کرے گا تو پھر عوام کیلئے کچھ نہیں بچے گا اور وہ ان کے ساتھ یہی کریں گے، حالاں کہ ماحول نہ بچا تو عوام کہاں بچیں گے، لیکن ٹرمپ کو ان چیزوں سے کیا لینا دینا، یہ تو پڑھے لکھے لوگوں کے غم ہیں، اب فرانسیسی حکومت نے ایک بار پھر ٹرمپ کو اپنے کام سے کام رکھنے کو کہا ہے اور فرانس کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے باز رہنے کی بات کی ہے۔ اب دیکھیں اس کا ٹرمپ کیا جواب دیتے ہیں، کیوں کہ باز تو وہ آنے سے رہے۔ جب سے فرانسیسی صدر نے مصافحے کے بہانے ٹرمپ کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ کر انہیں شرمندہ کیا تھا، لگتا ہے تب سے ہی فرانسیسی حکومت ان کے نشانے پر ہے، وہ اسی ہاتھ سے ٹوئٹ کر دیتے ہیں جو فرانسیسی صدر نے دبایا تھا۔ ٹرمپ جہاں بھی جائیں، وہاں اپنے نشان چھوڑ آتے ہیں، اب وہ جی 20 اجلاس کے لئے ارجنٹائن گئے تھے، وہاں میزبان صدر اسٹیج پر ان سے ہاتھ ملانے کے لئے آگے بڑھے، اسکرین پر ساری دنیا یہ دیکھ رہی تھی، لیکن ٹرمپ ناراض بیوی کی طرح ارجنٹائن کے صدر کی طرف دیکھے بغیر چلے گئے۔
ٹرمپ ہمارے سیاستدانوں سے خاصے متاثر نظر آتے ہیں اور ان جیسی حرکتیں ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں، جس طرح ہمارے سیاستدان اپنے خلاف تحقیقات پر شور کرتے ہیں، حکمران ہوں تو اپنی ذات کو پاکستان سمجھنے لگ جاتے ہیں، کچھ ایسا ہی معاملہ ٹرمپ کا ہے، ان کے خلاف روسی مداخلت کی تحقیقات تو وہاں کی اسٹیبلشمنٹ نے ایک ہتھیار کے طور پر جاری رکھی ہوئی ہیں اور لگتا ہے کہ یہ ان کے چار سالہ دور میں جاری ہی رہیں گی تاکہ اگر کہیں ٹرمپ قابو سے باہر ہوں تو ان تحقیقات کا ہتھوڑا مار کر انہیں گھر بھیجا جاسکے۔ اب ٹرمپ کو بیان کے لئے بلایا گیا تو انہوں نے اسے امریکہ اور امریکی قوم کی تضحیک قرار دے دیا، بالکل ایسے ہی جیسے ہمارے سیاستدان کرتے ہیں، جب ان سے تحقیقات کی باری آتی ہے تو جمہوریت اور قومی سلامتی انہیں سب کچھ خطرے میں نظر آنے لگتی ہے۔ ہمارے ہاں ن لیگ کے رکن قومی اسمبلی خواجہ آصف نے وزیر اعظم عمران خان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ بولنا کم کردیں، ان کی حکومت کو کسی اور سے نہیں، ان کی بہت زیادہ بولنے کی عادت سے ہی خطرہ ہے، اس سے ملتا جلتا ہی مشورہ امریکی سینیٹر جان کینڈی نے ٹرمپ کو دیا ہے اور کہا ہے کہ ٹوئٹ کم کرنے سے برین ہیمبرج نہیں ہو جاتا، اس لئے ٹوئٹ کم کر دیں، لیکن یقین رکھیں کہ نہ تو خواجہ آصف کا مشورہ قبول کئے جانے کی کوئی امید ہے اور نہ ہی ٹرمپ پر اپنے سینیٹر کے مشورے کا کچھ اثر ہونا ہے۔ سو ہمارے وزیراعظم کی بہت بولنے کی عادت اور ٹرمپ کے ٹوئٹ جاری و ساری رہیں گے۔ ویسے بھی میڈیا کی رونق انہی سے ہے، اگر یہ خاموش ہو جائیں تو پاکستان اور امریکی میڈیا کا گزارہ کیسے ہوگا؟ ٭