سرفروش

0

عباس ثاقب
اچانک میرے ذہن میں ایک خیال آیا۔ میں نے مانک سے کہا ’’اگر وہ دونوں واقعی میری بن چکی ہیں تو پھر مٹھو سنگھ کی لگائی ہوئی پابندیاں ختم ہوجانی چاہئیں‘‘۔
میری بات سن کر وہ چونکا۔ اس نے نوٹوں کی گنتی بھی روک دی ’’میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا سرکار؟‘‘۔
میں نے مضبوط لہجے میں کہا۔ ’’میرا مطلب یہ ہے کہ اب میں چوری چھپے نہیں، بلکہ روبرو ان دونوں کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ اس میں تمہارا بھی فائدہ ہے۔ میری ان سے ملاقات انہیںآئندہ صورتِ حال کے لیے ذہنی طور پر تیار کر دے گی۔ ورنہ اچانک یہاں سے لے جانے کی کوشش پر وہ دونوں مزاحمت بھی کر سکتی ہیں‘‘۔
میرے آخری الفاظ سنتے ہی اس کے چہرے پر بوکھلاہٹ اور پریشانی کے ملے جلے تاثرات ابھرے، جس کی وجہ مجھے بعد میں سمجھ آئی۔ مجھے ڈر تھا کہ وہ ایک بار پھر مٹھو سنگھ کی اجازت نہ ہونے کا بہانہ کرکے میرا یہ مطالبہ مسترد کر دے گا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر وہ فوراً تیار ہوگیا ’’اگر آپ کی یہی اِچھا ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن آپ ان سے میری موجودگی میں ملیں گے‘‘۔
میں نے اس کی یہ بات سختی سے مسترد کر دی ’’اس سے تو اچھا ہے کہ تم مجھے سیدھا سیدھا انکار کر دو۔ میں ان دونوں کی جھجک اور شرم دورکرنے، بے تکلفی پیدا کرنے کے لیے ان سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔ تمہاری موجودگی میں یہ سب کیسے ہوگا؟ ہو سکتا ہے ان کا دل جیتنے کے لیے تمہیں اور مٹھو سنگھ کو گندی گندی گالیوں سے نوازوں۔ ظاہر ہے تمہارے منہ پر میں یہ نہیں کر سکتا۔ شاید تم ان لڑکیوں کے سامنے اپنی ایسی بے عزتی برداشت بھی نہ کر سکو!‘‘۔
میرے ٹھوس دلائل نے یقیناً اس پر اثر کیا ہوگا۔ لیکن اس کے باوجود وہ تذبذب میں مبتلا دکھائی دیا۔ میں نے کہا ’’یار، اگر تمہیں یہ ڈر ہے کہ کہیں میں پوری رقم دینے سے پہلے ہی مال پر ہاتھ صاف نہ کردوں تو تم اس روشن دان سے جھانک کر چوکی داری کرسکتے ہو۔ پہلی ملاقات میں تو ایسی کوئی پیش قدمی ممکن بھی نہیں ہے۔ ویسے بھی میں زبردستی کرنے کے بجائے دل جیتنے پر یقین رکھتا ہوں‘‘۔
اس نے کھسیائے ہوئے لہجے میں کہا ’’مجھے آپ پر بھروسا ہے بہادر سنگھ جی، اچھا ٹھیک ہے۔ آپ ان دونوں سے مل سکتے ہیں۔ لیکن زیادہ وقت نہ لگانا۔ آپ کی کرپا ہوگی‘‘۔
میں نے مصنوعی جھنجلاہٹ کے ساتھ کہا ’’یار میں نے کہا ناں تم بے شک میری ہر حرکت پر نظر رکھو، لیکن یہ تھانے داری چھوڑ دو!‘‘۔
میری بات سن کر وہ ایک بار پھر شرمندہ سا دکھائی دیا ’’اچھا سرکار، جو آپ کی مرضی۔ مجھے پندرہ بیس منٹ دیں۔ مجھے یہ دیکھنا پڑے گا کہ وہ دونوں لڑکیاں اس وقت کیا کر رہی ہیں۔ کئی بار وہ اپنی مسلمانوں والی پوجا کے بعد سو جاتی ہیں۔ میں انہیں جگواتا ہوں۔ پھر میں آپ کو اندر لے کر چلوں گا۔ امید ہے آپ ناراض نہیں ہوں گے‘‘۔
میں نے کہا ’’ٹھیک ہے، یہ وقت میں اپنی گاڑی میں ایک دو سگریٹوں سے لطف اندوز ہونے میں گزارتا ہوں‘‘۔
میں اپنی جیپ میں جاکر بیٹھا تو ظہیر کو بے تابی سے منتظر پایا۔ اس نے چھوٹتے ہی پوچھا ’’کیا صورتِ حال ہے جمال بھائی؟ کام بن گیا؟‘‘۔
میں نے مطمئن لہجے میں کہا ’’ہاں…آخر مان گیا خبیث انسان!‘‘۔
اس نے اپنا ہیجان چھپاتے ہوئے کہا ’’یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ کتنی رقم دینی ہے اسے؟‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’پچاس ہزار روپے!‘‘
مجھے لگا کہ میرے الفاظ اس کے دماغ پر بجلی بن کر گرے ہیں۔ کئی لمحے خاموش رہنے کے بعد اس نے حیرت بھرے لہجے میں میرا ہر لفظ زور دے کر دہرایا۔ ’’پچاس… ہزار… روپے !‘‘۔
میں نے تصدیق کی۔ ’’ہاں… دونوں کے !… وہ شیطان تو چھوٹی بچی، یعنی جمیلہ کے لیے کم ازکم چالیس، اور بڑ ی لڑکی یعنی رخسانہ کے لیے کم ازکم تیس ہزار کی امید لگائے بیٹھا تھا۔ بڑی مشکل سے اس رقم پر راضی ہوا ہے، جبکہ اس سے زیادہ ادائیگی کی تو ہمارے پاس گنجائش بھی نہیں ہے‘‘۔
ظہیر نے گمبھیر لہجے میں کہا ’’لیکن یہ بھی بہت بڑی رقم ہے۔ اتنی بڑی کہ مجھے مل جائے تو ہماری آزادی کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوجائے۔ میں اپنے کشمیر پر قابض ہندوستانی فوج کو تباہ و برباد کر کے علاقہ چھوڑنے پر مجبور کر دوں‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More